مشرکین کو کافر نہ کہنا
یا ان کے مذہب کا استحسان کرنا
وہ شخص ہے جو مشرکین کو کافر نہ کہے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرنے لگے یا ان کے مذہب کو اچھا کہنے یا سمجھنے لگے ایسا شخص بھی کافر ہو جاتا ہے۔
شرح:
اس بند میں کئی امور ذکر ہوئے ہیں۔ ہر ہر موضوع پر اچھی خاصی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں؛ جس سے افراط اور تفریط کی بہت سی راہیں سامنے آتی ہیں۔ پس یہاں چند باتوںکی وضاحت کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے:
پہلی بات:
ہمارے یہاں __ برصغیر کے بعض موحد حلقوں میں __کسی شخص کو ’مشرک‘ تو نسبتاً بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے (کسی کو ایک خاص فرقے کی مسجد میں محض آتے جاتے بھی دیکھ لیا تو جھٹ سے ”مشرک“ کہہ ڈالا!) مگر جب اس کو ”کافر“ کہنے کا سوال آئے تو تب یہ لوگ ’محتاط‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں! حالانکہ ان دونوں باتوں کے لئے ایک ہی درجہ کی احتیاط لازم ہے، کیونکہ یہ دونوں باتیں دراصل لازم وملزوم ہیں۔
جتنا کسی کو ”کافر“ قرار دینا خطرناک ہے اتنا ہی اُس کو ”مشرک“ قرار دینا خطرناک ہے۔ ہر دو کی سنگینی ایک سی ہے۔
یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے ایک خاص طبقے کے ہاں کسی شخص کو ’مشرک‘ کہہ دینے میں کسی ”احتیاط“ یا کسی ”توقف“ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ تمام کی تمام احتیاط یہ لوگ اس ”مشرک“ کو ”کافر“ سمجھنے کیلئے پس انداز رکھتے ہیں! جبکہ معاملہ یہ ہے کہ احتیاط دراصل پہلا قدم اٹھانے کے وقت ہی درکار ہے۔
قاعدہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ہر وہ شخص جس سے شرک کے زمرے میں آنے والا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فوراً مشرک نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے کفر کا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فی الفور کافر نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے فسق کا کوئی کام سرزد ہو اُس کو معاً فاسق اور جس سے بدعت کا کوئی کام ہو اس کو جھٹ سے بدعتی نہیں کہہ دیاجائے گا۔ حکمِ مطلق بیان کرنا (کہ فلاں اعتقاد یا فلاں رویہ رکھنے والے شخص کا شریعت کے اندر یہ حکم ہے) ایک چیز ہے اور اُس کو بنیاد بنا کر کسی متعین شخص پر وہ فتویٰ لگا دینا ایک اور چیز۔(1)
کسی شخص کے ایسے فعل کی بنا پرجو ہمارے نزدیک شرک کے زمرے میں آتا ہے، اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شروط ہیں: وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جتنی احتیاط ہوسکے وہ یہیں پر، یعنی کسی کو مشرک قرار دیتے وقت، کی جانا ہوتی ہے۔ ’توقف‘ کا اصل مقام یہ ہے۔ لیکن اگر اس سے گزر جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور آپ اُس شخص کو ”مشرک“ ہی قرار دے ڈالتے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ یہ شخص ”مشرک“ تو ہو گیا ہے مگر ہے یہ ”مسلمان“، البتہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔
حق یہ ہے کہ جب آپ نے کسی کو ”مشرک“ کہہ ڈالا تو اُس کو ”کافر“ کہنے میں آپ نے کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ ”احتیاط“ ضروری ہے تو وہ اُس کو مشرک کہتے وقت ہی کر لیا کریں۔ ”شرکِ اکبر“ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور ابدی جہنم کا مستحق۔
اس غلط فہمی کے باعث لوگوں میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ سب مشرک کافر نہیں ہوتے! گویا بعض مشرک مسلمان ہوتے ہیں اور بعض مشرک کافر!
اصل قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ کلمہ گو شخص جو شرک کے زمرے میں آنے والے کسی فعل میں پڑ جائے اس کو تب تک مشرک نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اہل علم کے ہاتھوں اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر مشرک ہونے کا باقاعدہ حکم نہ لگا دیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوجاتا اس کے اس شرکیہ فعل کو شرک تو برملا کہا جائے گا اور اس شرک سے اس کو روکا بھی ضرور جائے گا مگر اس شخص کو ”مشرک“ کہنے سے احتیاط برتی جائے گی۔ البتہ جب وہ شرعی قواعد وضوابط کی رو سے اہل علم کے ہاتھوں مشرک ہی قرار دے دیا جائے تو اس وقت وہ دائرۂ اسلام سے خارج بھی شمار ہوگا۔
دوسری بات:
”مشرکین“ ایک تو وہ ہیں جو سرے سے مسلمان ہونے کا دعوی نہیں کرتے اور ایک وہ جو مسلمان ہونے کا دعوی کریں مگر اُن کا شرک اہل علم کی جانب سے اُن پر واضح کر دیا گیا ہو اور دینِ انبیاءسے اُن کا متصادم ہونا اُن پر آشکارا کر دیا گیا ہو، اُن کو تائب ہو جانے کی ترغیب اور تاکید کر لی گئی ہو اور باقاعدہ علمی شروط کو پورا کرتے ہوئے بالآخر اُن پر مشرک ہونے کا حکم لگا دیا گیا ہو۔
ثانی الذکر کی بابت اوپر ہم کچھ بات کر چکے۔ اول الذکر کی مثال جیسے ہندو، پارسی، بدھ، بت پرست اور تثلیث اور صلیب کے پجاری وغیرہ۔
مشرکین اول الذکر ہوں یا ثانی الذکر،اہل علم کے بیان کی رُو سے جب وہ ”مشرکین“ قرارپا جائیں تو ان کو ”کافر“ نہ جاننے کا مطلب یہی ہے کہ ہم اسلام کے اندر شرک کا وجود برداشت کریں۔ کفر کا مطلب ہے خدا کے دین سے یا انبیاءکی دعوت سے تصادم روا رکھنا۔ اب ”خدا کا دین“ یا ”انبیاءکی دعوت“ کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اﷲ کی بلا شرکت غیرے بندگی۔ سو انبیاءکے دین کے ساتھ کوئی سب سے بڑا تصادم اور کفر ہو سکتا ہے تو وہ خدا کے ساتھ شرک ہی ہے۔ لہٰذا جو آدمی مشرکین کو رسول کے دین سے متصادم نہیں مانتا اس کا اپنا ایمان بھی چلا جاتا ہے۔ شرک کی قباحت اور مذمت کا معاملہ واقعتا اتنی ہی صراحت اور بے لحاظی چاہتا ہے .... اور دراصل یہ اﷲ کا حق ہے۔
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (سبأ:24)
”اے نبی! ان سے پوچھو: ”کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے“؟ کہو: ”اﷲ“۔ اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا صاف نظر آنے والی گمراہی میں پڑا ہوا ہے“۔
یعنی: یا ہم حق پر ہیں یا تم۔ اِس شرک پر ہوتے ہوئے تم صاف گمراہی پر نہیں تو پھر ہم گمراہی پر ہیں۔ کیونکہ ہمارے اور تمہارے مابین فرق ہے ہی اتنا بڑا۔ تمہیں اِس شرک پر ہوتے ہوئے اگر حق پر مان لیں تو ہم خود باطل پر ہوئے۔ کیونکہ وہ لکیر جو اِس لا الٰہ الا اللہ نے ہمارے اور تمہارے مابین کھینچ دی ہے وہ ہے ہی اِس قدر گہری اور صریح کہ اِس کو غیر مرئی کر دینا کفر ہے۔ وہ فصیل جو ہمارے اور تمہارے مابین اِس لا الٰہ الا اللہ نے کھڑی کر دی ہے اُس کو معمولی جاننا اِس کلمہ کی حقیقت کا انکار ہے۔ اِس خلیج کو پاٹ دینا اِس کلمہ کی توہین ہے۔ ”ایمان اور کفر“.. یہ تو وہ لکیر ہے جو ہمارے لا الٰہ کہتے ہی دو فریقوں کے مابین کھنچ گئی ہے۔ یہ وہ فصیل ہے جس سے اونچی دنیا میں کوئی فصیل نہیں۔ یہ وہ خلیج ہے جس کو عبور کر کے ہی دو فریقوں کا حکم ایک سا ہو سکتا ہے۔ تم اِس کو پار کر کے ہمارے ساتھ آ ملو (حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ )(2) تو تم مسلم۔ ہم اِس کو پار کر کے تمہارے ساتھ آملیں تو ہم کافر۔
وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (سبأ:24)
”لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا صاف نظر آنے والی گمراہی میں پڑا ہوا ہے“۔
پس شرک کے ساتھ عداوت کا اسلام میں جو حکم ہے اور ملتِ شرک کے ساتھ مخاصمت کی شریعت میں جو تاکید ہوئی ہے اس کو دو ٹوک نہ رہنے دینا اور اس کو ’رواداری‘ کی نذر کر دینا ایک سطح پر جا کر آدمی کو دین اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔
’شرح نواقض الاسلام‘ میں شیخ عبدالعزیز الراجحی کہتے ہیں:
”مشرکین کی تکفیر کرنا دراصل کفر بالطاغوت کے معنی میں شامل ہے۔ کفر بالطاغوت میں یہ شامل ہے کہ آدمی طاغوت کی بندگی کرنے والوں کو کافر اور گمراہ اور ہلاکت پر جانے“۔
تیسری بات:
ہمارے ہاں کچھ لوگ ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور پارسیوں وغیرہ کو ’ازراہِ شائستگی‘ کافر یا کفار کہنے سے عمداً احتراز برتتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ خوامخواہ کی شدت اور غلظت ہے۔ ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں کیلئے زیادہ سے زیادہ یہ کسی لفظ کے روادار ہیں تو وہ ہے ’غیر مسلم‘۔ بسا اوقات یہ ان کو ’غیر مسلم بھائیوں‘ کے طور پر بھی پکارتے ہیں خصوصاً بعض سیاسی یا سماجی سرگرمیوں کے ضمن میں!
حق یہ ہے کہ ”غیر مسلم“ کی اصطلاح اسلامی قاموس کے اندر نووارد ہے اور ہماری اِن آخری صدیوں کے اندر جا کر ہی اِس قدر عام ہوئی ہے کیونکہ مغربی نقشے پر کھڑے کئے جانے والے اِن (جدید) معاشروں میں، جہاں ”دین“ انسان کی اصل شناخت نہیں، یہ لوگوں کی ایک ضرورت بن گئی تھی۔ اپنے اِس حالیہ استعمال کے لحاظ سے یہ ”غیر مسلم“ کا لفظ اسلام میں سراسر ایک محدَث ہے یعنی بعد میں گھڑی جانے والی چیز، قرآن اور حدیث کے ذخیرے قطعی طور پر آپ کو ”غیر مسلم“ کی اصطلاح سے خالی نظر آئیں گے۔
قرآن و حدیث کی اصطلاح میں ایک شخص ”مومن“ اور ”مسلم“ ہے خواہ وہ فسق و فجور یا بدعت (غیر مکفرہ) میں کیوں نہ پڑا ہوا ہو، یا پھر ”منافق“ ہوتا ہے (جس کا علم صرف اللہ کے پاس ہو سکتا ہے، ظاہر میں وہ ”مسلم“ ہی ہوتا ہے)، اور یا پھر وہ شخص ”کافر“ ہے۔ ”غیر مسلم“ البتہ آج کے دور میں سامنے آنے والی ایک نئی اصطلاح ہے جس کو مسلمانوں کی لغت میں زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے۔ اِس کی ترویج کیلئے طرح طرح کا سماجی دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ شروع شروع میں اِس کی ضرورت یہاں ہونے والی ”حقوق“ کی جدوجہد کے دوران پڑی، بعد ازاں جب یہ یہاں کے جدت پسند دانشوروں کے من کو بھانے لگی، تو اِس کو ایک ”علمی“ و ”شرعی“ اصطلاح کے رنگ میں بھی پیش کیا جانے لگا۔ البتہ جیسے ہی ”گلوبلائزیشن“ کے نقارے بجے، یہ یہاں پر ایک نعمت غیر مترقبہ کے طور پر دیکھی گئی، یہاں تک کہ اسلام کی اصل اصطلاح (”کافر“) آج ایک معیوب و غیر مہذب لفظ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے، بلکہ کچھ دانشوروں کو کیا سوجھی کہ وہ ”کافر“ کے لفظ کو فی زمانہ ”ممنوع“ و ”غیر شرعی“ ثابت کرنے چل پڑے!
علمائے اہل سنت اِس موضوع پر نہایت صریح ہیں کہ: دنیا کے جس ہندو، عیسائی، یہودی، مجوسی، بدھ یا ملحد نے محمد رسول اللہ کا سن رکھا ہے اور وہ آپ پر ایمان لا کر حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوا، اُس کیلئے ہماری اسلامی شرعی اصطلاح میں ایک ہی لفظ ہے، اور وہ ہے ”کافر“۔(3)
صرف یہی نہیں، جو شخص ایسے کسی شخص کے کافر ہونے میں شک یا تردد یا توقف بھی کرے، وہ بھی کافر ہو جاتا ہے۔ دنیا آج بھی محمد ﷺ کو بنیاد مان کر تقسیم ہو گی۔ قیامت تک دنیا کی تقسیم کی یہی ایک بنیاد ہو گی: محمد ﷺ کے لائے ہوئے دین کو ماننے والے ”مسلم“ اور نہ ماننے والے ”کافر“۔ تیسری کوئی قسم نہیں۔
چنانچہ اسلام کے سوا کسی اور دین کے ایک پیروکار اور محمد ﷺ کی شریعت کی تابعداری سے انکار کرنے والے ایک شخص کیلئے ’کافر‘ کا لفظ بولنا جس ”کلمہ گو“ پر گراں گزرتا ہے وہ خود بھی کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
چوتھی بات:
مشرکین کے کافر اور برسرِ باطل ہونے میں شک کرنا بھی کفر کا موجب ہے۔
بہت سے’روشن خیال‘ یہاں ایسے دیکھے گئے ہیں جو اپنے ’مذہب‘ پر رہتے ہوئے نماز روزہ بھی کرتے ہیں اور اسلام کے بہت سے اور فرائض بھی ایک روایتی انداز میں، یا پھر سکونِ قلب پانے کی نیت سے، انجام دے لیتے ہیں مگر دوسرے مذاہب کو صریح باطل اور غلط کہنے کے بھی کچھ زیادہ روادار نہیں۔ اِن میں سے کئی سارے یہ کہتے بھی دیکھے گئے ہیں کہ ’بھائی ہر کسی کو اپنے مذہب پہ چلنا ہے اور ہر کسی کو اپنا دھرم پیارا ہے۔ ہم اپنے مذہب پہ چلتے ہیں اور دوسرے لوگ اپنے اپنے مذہب اور دھرم پہ چلتے ہیں۔ اب یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ کون صحیح ہے‘!
یہ اندازِ فکر صریحاً کفر ہے۔ گویا خدا نے کوئی رسول اِس شخص کو یہ بتانے کیلئے بھیجا ہی نہیں کہ کیا حق ہے اور کیا باطل۔ ایسے آدمی کا رسول کی لائی ہوئی ہدایت سے کفر کرنا اظہر من الشمس ہے۔ اسلام اور توحید کے سوا کسی راستے پر چلنے کو بربادی نہ جاننا خود بربادی ہے چاہے آدمی بظاہر کتنا ہی ’باشرع‘ کیوں نہ ہو۔ ایسے ظالم نے رسول کی بعثت کا مول ہی کیا لگایا؟
غرض مشرکوں اور ادیان باطلہ کے پیروکاروں کے کافر اور برسر باطل ہونے میں شک کرنے کا اندازِ فکر طرح طرح سے آج اسلام کے نام لیوا کچھ طبقوں کے اندر بولتا ہے۔ خدا کی بابت یوں سوچنا ”جی کیا پتہ وہ کس سے خوش ہو جائے کوئی نماز پڑھ کے اس کو مناتا ہے کوئی ناچ کر اور کوئی برہنہ ہو کر“ گویا رسول نے اس کو یہ بات بتائی ہی نہیں کہ اس کا پیدا کرنے والا، جو کہ تمام تر حکمت اور دانائی کا مالک ہے اور اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے پورے اہتمام کے ساتھ رسول بھیجتا ہے،انسانوں کی کس بات سے خوش ہوتا ہے اور کس بات سے ناراض۔
اس طرز فکر کو یہ لوگ اگر رواداری سمجھتے ہیں تو ایسی رواداری رسول کے لائے ہوئے دین اور قرآن کی بتائی ہوئی قطعی اخبار کے ساتھ واضح کفر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس انداز کی اور اس سے ملتی جلتی ’رواداری‘ آج ایک کثیر خلقت کا مسلک ہے(4)۔
پانچویں بات:
اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ مشرکین کے مذہب کو آدمی اچھا کہہ دے۔ مشرکین کے مذہب کی کسی وقت تعریف کر دینا یا ان کے مذہب کیلئے اچھے الفاظ بول دینا آدمی کو ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ بے شک آدمی لحاظ ملاحظے کیلئے اوپر اوپر سے ایسا کہہ رہا ہو یا دل سے ایسا سمجھے، دونوں صورتوں میں یہ کفر ہے۔ گو ثانی الذکر سنگین تر ہے۔
اسلام کے ماسوا اَدیان ومذاہب اور عقائد ونظریات کی بابت یہ کہہ دینا کہ اپنی اپنی جگہ سب صحیح ہیں، نبی کی لائی ہوئی ہدایت کے ساتھ صریح کفر ہے۔ ایسا کہہ کر یا سمجھ کر آدمی دائرۂ اسلام میں نہیں رہتا۔
چھٹی بات:
کچھ ”تکفیری“ فکر کے حامل طبقوں نے اس قاعدہ کی کہ ”مشرکوں یا کافروں کو جو آدمی کافر نہ کہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے“ بہت ہی غلط اور بے محل اور تنگ نظر تفسیر کرنا شروع کردی اور نتیجتاً وہ اپنے اور دوسروں کیلئے فتنہ کا سامان بنے۔
یہ لوگ پہلے کسی ایک شخص یا گروہ کو کافر کہیں گے مثلاً بعض حکمران یا کسی شرکیہ فعل کی مرتکب بعض شخصیات کو ___ جبکہ ہو سکتا ہے اس حکمران یا اس شخصیت کی تکفیر کی حد تک وہ درست ہی ہوں یا ان کے درست ہونے کا احتمال ہو اور ان کا اختیار کردہ موقف ”اختلافِ سائغ“(5) شمار ہوتا ہو، وہ یہاں رک جائیں تو کوئی زیادہ سے زیادہ ان سے اختلاف کرے تو کرے مگر ان کو گمراہ نہیں کہہ سکتا۔ مگر یہ لوگ اس معاملہ کو بڑھاتے چلے جائیں گے ___ اب جو اس میں ان کی موافقت نہ کرے گا، یعنی ان کے کافر ٹھہرائے ہوئے شخص کو کافر نہیں کہے گا، مذکورہ بالا قاعدہ کی اپنی اس غلط تفسیر کی رو سے، یہ اس کو کافر کہیں گے۔ چنانچہ تکفیر کا موضوعِ بحث اب پہلے شخص کی بجائے دوسرا شخص ہو جائے گا۔ جبکہ پہلے شخص کی تکفیر پر ان کا موقف اگر ”اختلافِ سائغ“ میں شمار ہوتا تھا تو اب اس دوسرے شخص کی تکفیر نہ کرنے والے شخص کی تکفیر ”اختلافِ سائغ“ تک میں نہیں آتی، مگر یہ اس کو بھی ’مسلمات‘ کے زمرے میں ہی شمار کرتے ہوئے ’تکفیر‘ کے اس ’کڑی در کڑی‘ سلسلہ کو آگے بڑھاتے چلے جائیں گے۔ اب (اس دوسرے مرحلہ کا موضوع بننے والے) شخص کی تکفیر پر اگر کوئی ان سے اختلاف کرے، بے شک وہ پہلے مرحلے میں ان کا ساتھ ہی دے چکا ہو، وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج! اب تیسرے مرحلے کی نوبت آئے گی۔ اب جو اِس کو دائرۂ اسلام سے خارج نہ سمجھے! .... پھر چوتھے مرحلہ میں داخل ہوں گے، اب یہاں جو ان کا ساتھ نہ دے پائے!.... ہر نئے مرحلہ میں کچھ لوگ جھڑ جائیں گے اور اگلے مرحلہ کیلئے ان کے یہ اپنے ہی ہم خیال ان کا ساتھ نہیں دے پائیں گے۔ بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ آخر میں چند ہی لوگ ’مسلمان‘ باقی رہ جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو صرف ایک ہی شخص! غرض یہ لوگ مرحلہ در مرحلہ تکفیر میں اِن کا ساتھ نہ دینے والوں کی تکفیر کرتے جائیں گے۔ دلیل یہی کہ محمد بن عبد الوہابؒ ایسے علمائے عقیدہ نے بیان کیا ہے کہ ”مشرکوں کو کافر کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے“! یوں یہ دائرہ چلتا رہے گا۔ اہلِ علم سے رہنمائی لینے کا کبھی سوال تک ان کے ہاں نہ اٹھا ہوگا۔ اسی مضحکہ خیز حرکت کو یہ لوگ عقیدہ کی تطبیق کا نام دیں گے!
یہ طفلانہ اندازِ تفسیر کچھ اس غلط طریقے سے عام ہوا ہے کہ علمائے اسلام کا بیان کردہ یہ مذکورہ بالا قاعدہ (کہ مشرک کی تکفیر نہ کرنے والا خود کافر ہوجاتا ہے) ذکر کرنا بھی اب مشکل ہو گیا ہے۔ ہمارے دور کے بعض مرجئہ نے بھی اس صورتحال کا خوب خوب فائدہ اٹھایا اور اس قاعدہ کی تطبیق کی کچھ ناپختہ و بچگانہ صورتوں اوران ناپسندیدہ مثالوں کو چٹکلوں اور لطیفوں کی صورت میں نشر کر کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ قاعدہ کچھ انتہا پسند اور کم علم جذباتی نوجوانوں کا وضع کردہ ہے نہ کہ علمائے اہلسنت کا بیان کردہ!
یہ حضرات اگر محمد بن عبدالوہابؒ کو ___جن کے رسالہ کا متن اوپر دیا گیا ہے___ علمائے اہلسنت سے خارج سمجھتے ہیں اور ان کا شمار ’خوارج‘ میں کرتے ہیں پھر تو اور بات ہے لیکن اگر محمد بن عبدالوہابؒ کو عقیدہ کے موضوع پر منہج اہلسنت کا ترجمان مانتے ہیں تو ان کے ہاں اس قاعدہ کو باقاعدہ نواقض اسلام کے تیسرے بند کے طور پر پا کر ان حضرات کو اپنے اس مفروضہ پر نظر ثانی کر لینی چاہیے۔ رہ گئی اِن تکفیری رجحانات کے حامل طبقوں کا طرزِ عمل، اور جو کہ جہالت اور غلو کا شاخسانہ ہے اور علم و علماءسے دوری کا ایک طبعی نتیجہ، تو اس کی تصحیح ضروری ہے۔ اگلے نقطہ (ساتویں بات) میں اِسی کا بیان آ رہا ہے۔
ساتویں بات:
معاملہ یہ ہے کہ اسلام سے منسوب کسی فرد یا گروہ کی تکفیر کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ علماءاہلسنت کا اس کی تکفیر پر اصولی اتفاق ہو۔ دوسری یہ کہ علماءاہلسنت کے ہاں اس فرد یا گروہ کی تکفیر کی بابت ایک سے زیادہ آراءپائی جائیں....
اول الذکر صورت میں اس قاعدہ کا قطعی اطلاق ہوگا۔ جس فرد یا گروہ کو مشرک اور کافر کہنے پر علمائے حق اصولاً مجتمع ہو گئے ہوں، اس کو کافر نہ کہنے والا آدمی کفر ہی کا مستوجب ہوگا۔ مثلاً قادیانیوں، بہائیوں، بابیوں، نصیریوں اور دروزیوں و اسماعیلیوں وغیرہ کی تکفیرنہ کرنے والا بھی کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے، کیونکہ ان کی تکفیر پر علمائے اسلام میں اختلاف نہیں۔
ثانی الذکر صورت، یعنی جہاں کسی فرد یا گروہ کی تکفیر میں علماءکے مابین ایک سے زیادہ رائیں پائی جاتی ہیں: اس صورت میں جو آدمی علمائے اہلسنت کے ایک گروہ کے فتوی کا قائل ہے وہ دوسرے گروہ کے فتویٰ پر چلنے والے پر طعن وتشنیع کا مجاز نہ ہوگا۔ اس کی دلیل صحابہ کے تعامل میں بہت واضح ہے۔ مثلاً امام ابن تیمیہؒ ذکر کرتے ہیں کہ خوارج کی تکفیر کی بابت صحابہؓ اور بعد کے ائمۂ اہلسنت میں اختلاف ہوا ہے۔ یعنی خوارج کو ”گمراہ ماننے اور ان سے قتال کرنے“ پر تو صحابہ سب متفق تھے مگر ان کو ”کافر کہنے“ کے بارہ میں ان کے مابین دو رائے پائی گئیں۔ ظاہر ہے کہ صحابہ نے اس اختلاف کو بھی ویسے ہی لیا جیسے دین کے بعض دوسرے مسائل میں اختلاف کی بابت ان کا آپس میں تعامل ہوا کرتا تھا۔ اس اختلاف سے ان کے اپنے مابین ’فتویٰ بازی‘ کی نوبت تو معاذ اللہ کیونکر آتی، ان کی باہمی محبت اور اخوت میں ذرہ بھر کمی نہ آنے پائی۔
جہاں کوئی ایسی صورتحال پیش آئی کہ صحابہ وتابعین کا ایک فریق کسی شخص یا گروہ پر کفر کا فتوی لگاتا تھا اور کوئی دوسرا فریق اس کو کافر نہ گردانتا تھا تو اس صورت میں ___ یعنی اختلافِ سائغ کے وقت ___ وہ ایک دوسرے کو خرابیِ عقیدہ کے طعنے نہیں دیتے تھے۔ نہ تو تکفیر کرنے والا گروہ اس قاعدہ کا اطلاق کرتا تھا کہ ”کافر کو کافر نہ کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے“ (جس کو کہ تکفیری لوگ آج ایک غلط معنیٰ اور ایک طفلانہ انداز میں استعمال کرتے ہیں)اور نہ تکفیر نہ کرنے والا گروہ اس قاعدہ کا اطلاق کرتا کہ ”ایک مسلمان کو کافر کہنے والے کا قول خود اس کے کہنے والے پر ہی لوٹ آتا ہے“ (جس کو کہ مرجئہ لوگ آج ایک غلط معنیٰ اور ایک مناظرانہ انداز میں بکثرت استعمال کرتے ہیں)۔
تارکِ نماز کے کافر ہونے کی بابت سلف کا اختلاف منقول ہے اور ہر شخص اس سے واقف۔ یہاں بھی سلف کے مابین علمی اختلاف نظر آتا ہے نہ کہ ایک دوسرے پر طعن وتشنیع۔ نہ تو تکفیر کرنے والے فریق نے تکفیر نہ کرنے والے فریق کو کسی طرح سے مورد الزام ٹھہرایا اور ارجاءکے طعنے دیے اور نہ ہی تکفیر نہ کرنے والے گروہ نے تکفیر کرنے والے گروہ کی بابت اس اندیشہ کا اظہار کیا کہ تارک نماز کو کافر کہنے والے کا قول خود اس کے کہنے والے پر ہی لوٹ آئے گا یا یہ کہ تارکِ نماز کو خارجِ اسلام سمجھنے والے خارجیت کے مرتکب ہیں۔ یہ دراصل شرعی نصوص کے سمجھنے اور استنباط کرنے میں اختلاف تھا جو ان کی باہمی اخوت ومحبت کے برقرار رہنے میں مانع نہ ہوا۔
چنانچہ واضح ہوا کہ اس قاعدہ کا اطلاق ایسے طوائف یا اشخاص کے معاملہ میں ہوگا جن کی تکفیر پر علمائے اہلسنت متفق ہوں۔ ہاں البتہ جہاں کسی کی تکفیر کے معاملہ میں علمائے حق کے یہاں ایک سے زیادہ رائیں پائی جائیں وہاں اگر آپ کسی شخص یا گروہ کو مستوجب کفر سمجھتے ہیں اور کوئی دوسر ایسا نہیں سمجھتا تو آپ دونوں اپنی اپنی رائے پر برقرار رہ سکتے ہیں، بغیر اس کے کہ آپ میں ایک، دوسرے کو خارجی سمجھے تو دوسرا، پہلے کو مرجئہ۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔