Monday, April 4, 2011

(شیخ حسین بن محمود سے انقلابی تحریکوں کے بارے میں سوالات ۵)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(شیخ حسین بن محمود سے انقلابی تحریکوں کے بارے میں سوالات ۵)

19 ربیع الاول 1432ھ

(ترجمہ: انصار اللہ (اردو بلاگ

س: لیبیا میں کیا ہورہا ہے؟

ج: عوامی انقلاب۔

س: کیا یہ جنگ ہے ؟

ج: جی ہاں۔

س: کیا جہازوں سے بھی بمباری کی گئی؟

ج: جہازوں ،ٹینکوں اور سمندر سے بحری جنگی بیڑوں سے ، یہ جنگ ہے۔

س: کیا یہ جہا د ہے ؟

ج: اس شخص کے لئے سب سے بڑاجہاد ہے کہ جس نے اپنی نیت خالص کر لی ۔

س: کیا نیت کرے؟

ج: یہ نیت کرے کہ مسلمان کے خون اور ان کی عزتو ں کی حفاظت کے لئے اس مجنون کو ہٹانا ہے۔

س: آپ نے سیف القذافی کی بات سنی؟

ج: جی ہاں۔

س: اس کے بیان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: میں تو ڈرتا تھا کہ وہ اس کے علاوہ کچھ اور کہے گا، مگر الحمد للہ کہ جس ذات نے ان سب کو بے وقوف بنایا، پورا خاندان ہی بے وقوف ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کے طلب گار ہیں۔

س: آپ کا مطلب کیا ہے ؟

ج: لیبیائی عوام بہت مہربان اور جذباتی عوام ہیں،مگر اس کے ساتھ ہی سخت ضدی عوام بھی ہیں، سو دھمکی نے عوامی وقبائلی غیض وغضب کو بھڑکانے میں بڑی اچھی طرح ایندھن کا کام کیا۔

س: مغربی ملکوں کا کیا موٴقف ہے ؟

ج: میں اس پہلے آپ سے کہہ چکا ہوں کہ لیبیا اٹلی کے اثر و رسوخ کے تابع ہے، لہذا اسے لیبیا کی فکر ہے اورقذافی اٹلی کو حکمرانی کرنے کے بدلے میں تیل دیتا ہے۔کیونکہ وہی اسے حکومت میں لائے تھے، اسی طرح وہ بعض یورپی ملکوں کو بلیک مارکیٹ میں کوڑیوں کے بھاوٴ تیل بیچتاہے۔ اور اسی طرح امریکا سے کرتا ہے ،لہذا اُس کی اُنہیں غیر قانونی نقل مکانی کے معاملے میں عدم تعاون کی دھمکی درحقیقت تیل کی دھمکی ہے۔

س: یہ چُھپی ہوئی دھمکی کیوں ؟

ج:کیوں کہ بلیک مارکیٹ سے خریدوفروخت غیر قانونی ہے اور اس لیے کہ تیل کی کمپنیاں اپنامال یورپ میں منڈی کے بھاوٴبیچتی ہیں،جبکہ انہیں زیادہ اخراجات بھی نہیں اٹھانے پڑتے،اور اس لیے بھی کہ یورپی عوام کے بعض لوگ قذافی کو پسند نہیں کرتے اورنہ اُس کے ساتھ کام کرنے والے کو،اس لیے اگر قذافی نے ان غیراعلانیہ معاہدوں کو بھانڈاپھوڑاتوامریکی ویورپی حکومتوں کے دھوکے اور جھوٹ کا پول کھل کرسامنے آجائے گا۔

س: کیاصرف تیل ہی سبب ہے؟

ج: نہیں۔ وہ مغربی ممالک اس وقت مشکل میں ہیں،کیونکہ انہیں کوئی ایساشخص نہیں مل رہاکہ جولیبیاپر اُن کی خواہشات کے مطابق حکمرانی کرے ،اس لیے کہ لیبیامیں تیونس اورمصر کی طرح حکمران جماعت ہی نہیں کہ مصر وتیونس میں توانہوں نے حکمران کوتوچلتاکیامگر حکومت کوبچالیا،جبکہ لیبیامیں قذافی ہی حکومت ہے،اور وہ اس کے متبادل کی تلاش میں ہیں ۔اور ہوسکتاہے کہ وہ (قذافی) اُنہیں (مغربی ملکوں کو) رُسواکردے،کیونکہ وہ اسے کئی ملکوں میں عوامی تحریکوں کی مال کی فراہمی کے لیے استعمال کرتے تھے اور دوسری وجہ، یورپیوں کی اسلامی مغرب کے ساتھ ماضی قریب کی تاریخ کچھ اچھی نہ تھی ،خاص طور پر لیبیااور الجزائرمیں۔ لہٰذاوہ ان کی سختی سے ڈرتے ہیں،جب کہ اس تمام عرصے میں وہ امن میں تھے،اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان ملکوں کے عوام ان طاغوتوں کے قبضے سے آزاد ہوں،اسلامی لشکر الجزائر کے ساحلوں سے نکل کر یورپی شہروں پر قبضہ کرلیتے تھے اور قیدی بناتے اور غلام ولونڈیاں بناتے۔ لہٰذایورپی یاداشت ابھی تک تازہ ہے اور لیبیااور الجزائرمیں مجاہدین کے بڑے گروپ ہیں اور وہ قبائل بھی کہ جنہیں شہری زندگی نے ابھی تک آلودہ نہیں کیا اور ان میں سے اکثرکے عقائد صاف وشفاف ہیں۔

لہٰذا تصور کیجیے کہ مسلح مجاہدین صاف وشفاف عقیدے کے ساتھ اور سخت قوت وہیبت والے ، یہ ایک ایسا مرکب ہے کہ جسے مغرب پسند نہیں کرتا۔

س: عرب ملکوں کا موقف ؟

ج: کون سا موٴقف…؟ اورکیاان حکومتوں کا بھی کوئی موٴقف ہوتا ہے…!یہ تو مغربی ملکوں کے ماتحت ہیں ،اگر وہ بولیں گے تو یہ بولیں گے۔

س: لیبیا والوں کے لیے حل کیا ہے؟

ج: جو کچھ ہم نے مصر اور تیونس والوں سے کہا کہ ملک کو حاصل کرنے میں سُرعت سے کام لیناکہ اس سے پہلے غیرملکی مداخلت آجائے۔مگر مصراور تیونس والوں نے سُستی سے کام لیااور اپنی مہم پوری نہیں کی ،لہٰذااب حکومت ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ پرانی حکومتوں کے پاس ہی ہے ۔

س: لیبیامیں مقتولوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے؟

ج: یہ حریت وکرامت کا ٹیکس ہے اور جوکوئی اس لیے لڑاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہوتووہ شہید ہے ۔اوریہ کوئی نقصان نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والااللہ کے ہاں زندہ ہے اور رزق دیا جاتاہے۔

س: لیبیاکے علماء نے قذافی کے خلاف خروج کے واجب ہونے کا فتویٰ دیا ہے…!

ج: یہی تو ہم اور جہادی قیادت تیس سال سے کہہ رہے ہیں کیونکہ یہ شخص مرتد کافر ہے اس کے خلاف خروج واجب ہے ۔

س: مگر انہوں نے اس وقت تک انتظار کیوں کیا؟

ج: اُنہیں پوچھیں۔

س:قرضاوی اوربراک وغیرہ نے اس کے کفر کی وجہ سے اس کے خلاف خروج کو ضروری قرادیا ہے ۔

ج: میں نے قرضاوی کا بیان سناہے ،چند سال قبل وہ اس کے پاس جاتااور اُس کے سامنے مسکراتاتھااور اب اس کے قتل کا فتویٰ دیتاہے!وہ تو بہت سے عرب حُکمرانوں کے پاس جاتاہے اور اُن کے پاس بیٹھتا ہے اور اُن کی تعریفیں کرتا ہے،اس وقت کیاہوگااگر ان تمام حکمرانوں کے عوام ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو کیایہ اُن سب کے قتل کا فتویٰ دے گا!

اور اگر مصر یاتیونس یالیبیا کی کی انقلابی تحریک ناکام ہوگئی توکیاہوگا، کیا تم اپنی یہ رائے تبدیل کرکےاپنے پرانے دَورکی طرف لوٹ جاوٴگے ان حکمرا نوں کے ساتھ!

س: گویا کہ آپ اُ س کے خلا ف غصے میں ہیں ؟

ج: ہم چاہتے ہیں کہ علماء مضبوط موٴقف اپنائیں ،ہم چاہتے ہیں کہ وہ عوام کے حق کے ساتھ کھڑے ہوں اور ہم اُن کی چابلوسی سے راضی نہیں ، اوراللہ اکبر، وہ اس سے زیادہ باعزت ہیں کہ ان طاغوتوں کے سامنے جھکیں کیونکہ ان کے سینوں میں نُبوت کی میراث ہے،اگر یہ سچاموٴقف اپناتے تو عوام اُن کے ساتھ کھڑے ہوتے اور یہ اُن سے قوت پکڑتے، اللہ تعالیٰ کی مددکے بعد۔

س: البراک کے بارے میں کیاخیال ہے؟

ج: شیخ براک ایسا آدمی ہے کہ جس کے موٴقف مضبوط ہوتے ہیں مگر وہ آلِ سعود کی طرف سے گھیراوٴ میں ہے،اس کے باوجود وہ بڑی جرأت کے ساتھ ایک کے بعد دوسرافتویٰ جاری کررہاہے مگر ہم مزید کامطالبہ کرتے ہیں ۔

ہم صاف وشفاف حق دیکھناچاہتے ہیں،ہم اُن حکمرانوں کے بارے میں اللہ کے حکم کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے ،ہم اس شخص کے بارے میں اللہ کا حکم سنناچاہتے ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی شریعت کو تبدیل کیااور غیراللہ کاحکم نافذ کیااور اللہ کے دُشمنوں سے دوستی کرتااور اللہ کے ولیوں سے دُشمنی کرتا،مسلمانوں کے مال پر ڈاکہ ڈالتااور ایمان والوں میں فحاشی پھیلاتا،آزادی سلب کرتااور امت (مسلمہ) کے مستقبل سے کھیلتاہے۔

اب جبکہ مصر میں بیس ملین سے زیادہ حرکت میں آئے تواب حُسنی کافروطاغوت ٹھہرا…اور تیونس میں اتنی قتل وغارت کے بعد اب ابن علی مرتد ہوا… اورلیبیامیں مذبح قائم ہونے کے بعد قذافی کا خون بہانااب جائز ہوا۔

کیاشیخ اُسامہ تین عشروں سے انہی چیزوں کا اعلان نہیں کررہےتھےتو اُنہیں خارجی اور تکفیری فتنہ کہاجاتاتھا،اب فرق کیا ہے؟وہ خروج پر اُبھارتےتھےجبکہ لوگ اب نکلے، کیافرق ہے اب…؟

س: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ پُرامن خُروج ہے جبکہ شیخ اُسامہ مسلح خُروج پر اُبھارتے تھے!

ج: شیخ اُسامہ اب بھی مسلح خروج پر اُبھارتےہیں،مصراور تیونس میں پُر امن خُروج کامطلوبہ فائدہ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی اس کافائدہ یمن، نہ مراکش، نہ الجزائراور نہ ہی لیبیا میں ہوگا۔مصر اور تیونس میں توحکمرانی کےچہرے کے سوا کچھ بھی نہیں بدلا، البتہ تیونس میں معاشرتی اعتبار سے کچھ تبدیلی آئی ہے لیکن مملکت اب بھی مُرتدوں کے ہاتھ میں ہے۔نوجوان اس لیے تونہیں مَرے کہ حُسنی توچلا جائے اور اُس کی پارٹی رہے یااس کی حکومت کے افراد باقی رہیں۔

س: لیکن آپ تو مصری مظاہروں کا ساتھ دیتے تھے؟

ج: میں تو اب بھی اُن کے ساتھ ہوں اور اُنہیں وہی کہتاہوں جومیں نے پہلے کہاتھا کہ قافلہ چلتارہناچاہیےاور تیزی سے حرکت کرنی چاہیے اور بیچ را ہ کے رُک نہیں جانا چاہیے،یہ لوگ بغیر طاقت کے نہیں ہٹنے والے اور آنے والے دن ہمارے درمیان اس چیز کے گواہ ہوں گے۔

س: لیبیاکے بارے میں کیاخیال ہے؟

ج: بہت ضروری ہے کہ وہ مقصد پورا کیاجائے جوانقلابیوں نے مصر اور تیونس میں پورا نہیں کیا،تمام حکومتی اداروں میں داخل ہونااور اُن کاکنٹرول حاصل کرنااور ذرائع ابلاغ پر قبضہ کرنااور قذافی اوراُس کے بیٹوں کوپکڑنااور انہیں پھانسی دیناقبل اس کے کہ وہ بھاگ جائیں اور قبائلی سرداروں ،علماء،مہذب لوگوں اور فوجی قیادت کی کمیٹی بنانابہت ضروری ہے کیونکہ یہی لوگ اہل الحل والعقدہیں ،ان میں سے ان لوگوں کو اختیار کریں کہ جن کے دین ودنیا کووہ پسند کرتے ہوں ،اس سے قبل کہ امریکااوریورپی ملک ان کے لیے چُنیں ،جیساکہ اُنہوں نے مصر اور تیونس میں کیا،اور میں اُنہیں وہی کہتا ہوں جو میں نے مصر اور تیونس والوں سے کہاتھاکہ خبردار …!مغربی اور عرب ملکوں کے حکمرانوں پر بھروسہ مت کرنا،یہ سب خائن اور جھوٹے ہیں ،آپ خود پر اعتماد کریں اور اپنے آپ میں سے اُن لوگوں کوچنیں کہ جن کے دین ودنیاسے آ پ لوگ راضی ہوں۔

س: کیاآپ کاخیال ہے کہ لیبیا کے عوام کامیاب ہوجائیں گے؟

ج: وہ توکامیاب ہوچکے بس چند دن کی بات ہے اور طرابلس کاسقوط ہوجائے گا۔لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ جمہور اور قبائل کاایک بڑاریلابڑی تیزی کے ساتھ اور منظم انداز میں طرابلس میں تمام اطراف سے اچانک داخل ہواور قذافی اور اس کے کسی بیٹے کے لیے فرار کی گنجائش نہ چھوڑے۔اے کاش …!کہ یہ لوگ طرابلس کے سب سے بڑے میدان میں کیمروں کے سامنے اعلانیہ طور پر انہیں ذبح کریں ۔

س: بعض لوگ اُنہیں پُر امن راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

ج: یہ لوگ قذافی کی طرح مجنون ہیں اور کیاقذافی نے اس ملک میں امن رہنے دیاہے،جنگی جہازوں،ٹینکوں،اینٹی ائیرگنوں ،بحری بیڑوں سے بمباری کروارہاہے اور یہ کہتے ہیں کہ پُر امن رہیں ،یہ جہاد ہے اور جہاد کے علاوہ دوسراکوئی راستہ ہی نہیں ۔

س: اوراُن کرائے کے غنڈوں کے بارے میں کیاخیال ہے کہ قذافی نے جنہیں لیبیامیں لانے کا وعدہ کیاہے ؟

ج: وہ تو اس وقت لیبیا میں ہیں،اور مظاہرہ کرنے والے لیبیائی نہتے عوام کے لیے ممکن نہیں کہ اُن کاسامناکرسکیں بلکہ لیبیائی فوج اور لیبیائی قبائل کاسامنے آناضروری ہے ،کیونکہ یہ اُن کے ملک پر براہِ راست قبضہ ہے ، اورہوسکتا ہے کہ قذافی جنوبی امریکہ سے بعض کرائے کے غنڈوں کو لائے جنہیں لیبیائی مال سے نوازتا ہے اور اُنہیں جنگ کابڑاتجربہ ہے۔

س: مصریوں ،تیونسیوں اور الجزائریوں کے لیبیامیں داخل ہونے کے بارے میں کیاخیال ہے ؟

ج: مصریوں اور تیونسیوں کو تو داخل نہیں ہونے دیاجائے گا،جبکہ الجزائریوں کاداخلہ آسان ہے،اور اس وقت تمام ایسے لیبیائیوں،مصریوں،الجزائریوں،چاڈیوں،سوڈانیوں اورنائیجر والوں پرلیبیامیں جہاد کرنا فرضِ عین ہوچکاہے کہ جوا س کی استطاعت رکھتے ہیں،کیونکہ یہی ملک لیبیاکے ار د گِرد ہیں،لہٰذا جس کے پاس کارآمد اسلحہ ہے اور وہ لیبیائیوں کی مدد کرسکتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ جلد از جلد داخل ہونے کی کوشش کرے،کیونکہ جو افریقی قذافی کے پاس ہیں اُنہیں نہ تو کوئی عقل ہے اور نہ اُن کے پاس کوئی دین ،بالکل انہی کی طرح جنہیں وہ باہر سے لایا ہے ،یہ سب کرائے کے پٹھونہیں بلکہ قذافی کے پاس افریقی غلاموں کاایک بڑاگروہ ہے،جنہیں اُس نے اُن کے بچپن میں خرید لیا تھااور اُن کی اپنے پاس پرورش کی تاکہ یہ اُس کے حفاظتی غلام بن جائیں اور یہ دسیوں ہزار ہیں۔

س: اور یمن کے بارے میں کیاخیال ہے؟

ج: یمن میں حالات پیچیدہ ہیں ،یمن میں قبائل ٹینکوں اور اینٹی ائیر گنوں سے مسلح ہیں اور وہاں جنوبی تحریک ہے جو جنوبی علاقے کی علیحدگی چاہتے ہیں اور وہاں”حوثی“اور”زیدیہ“ہیں اور وہاں کئی ایسی جماعتیں بھی ہیں کہ جن کے مبہم مقاصدواہداف ہیں،اس کے علاوہ آلِ سعود،امریکا،اور ایران کی مداخلت بھی واضح ہے۔

س: کیاوہ لوگ علی صالح کی حکومت گرانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟

ج: مسئلہ اور مشکل علی صالح کی نہیں ،بلکہ یمن ساراہی پیچیدہ ہے،(اس کے بعد) وہاں عدم مرکزیت ہوگی اور ہوسکتاہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم ہوجائے،یمن کے حالات کو بہت باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہے،واقعی وہاں معاملہ مصر،تیونس اور لیبیا جیسانہیں۔

س: بحرین؟

ج: یہ لوگ رافضی (شیعہ) ہیں،جنہیں ایران متحرک کررہاہے،اس کے جواب میں کہ جو امریکااور ریاض کے حکمران ایران میں حزبِ اختلاف کی مدد کررہے ہیں ۔

س: ریاض کے حکمران؟

ج: بالکل،امریکا کے حکم سے، ریاض کی خارجی سیاست تو امریکی اداروں کے اشارے پر چلتی ہے۔

س: ہوسکتاہے کہ یہ ہمارے موضوع سے خارج ہو،جو کچھ ہورہاہے اس پر الجامیہ کاکیاموٴوقف ہے؟

ج: بادشاہ کے بندے (غلام) ہرروز ان کا الٰہ گِرتاہے،لیکن جب تک اُن کابڑارب ”ریاض “ میں نصب ہے وہ کسی حد تک مطمئن ہیں۔

س: کیا یہ اصطلاح دُرست ہے؟ میرامطلب ”عبدةالسلطان“ (بادشاہ کے بندے) والی۔

ج: اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ…)

ترجمہ: ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے۔ (التوبة: ٣١)

اور عدی کی حدیث میں ہے کہ:

اُنہوں (عالموں اور درویشوں)نےاُن (عوام) پر حلال کو حرام کیااور حرام کو حلال کیا تو انہوں (عوام) نے اُن (عالموں اور درویشوں) کی پیروی کی تویہی اُن کی عبادت تھی۔

لہٰذایہ حکمران حلال کوحرام کرتے ہیں اور حرام کو حلال کرتے ہیں،وہ ان کی پیروی کرتے ہیں تو یہی اُن کی ان کے لیے عبادت ہے،توجوکوئی بھی اس شخص کی پیروی کرتا ہے کہ جو حلال کو حرام کرتااور حرام کو حلال کرتاہے تو وہ اس کاعابد (عبادت کرنے والا) ہے۔

س: اب ہم لیبیاکی طرف لوٹتے ہیں ،کیاآپ کاخیال ہے کہ وہاں مزید بمباری اور قتل وغارت ہوگی؟

ج: ہم نے کہاناکہ قذافی بے وقوف (پاگل) ہے اور ظاہر تو یہی ہوتاہے کہ اُس کے بیٹے بھی اُسی کی طرح ہیں،توہم اسے کچھ بعید نہیں سمجھتے کہ وہ پورے لیبیاکو بھی جلادے اگر وہ ایسا کرسکاتو۔لیکن ہم اللہ تعالیٰ سے دُعاگو ہیں کہ وہ لیبیامیں ہمارے بھائیوں پر رحم فرمائے اور اُنہیں اُس پر غالب کرے،اس سے پہلے کہ مسلمانوں کا خون بہایاجائے۔

س: کئی لوگ اٹلی اوریہودی طیاروں کی لیبیامیں بات کرتے ہیں ۔

ج: ہم اسے کچھ بعید نہیں سمجھتے ،ہم نے کہا ہے کہ لیبیا اٹلی کے ماتحت ہے،رہے یہود تو شاید یہ اُنہیں لیبیائی تیل فراہم کرتا ہواور وہ اس کے بدلے میں مغربی ملکوں میں ذرائع ابلاغ کے ذریعےاور سیاسی طور پر اس کی مدد کرتے ہوں۔

س: اور اور یہود کے خلاف جو اس کےنعرے اورمشتعل خطاب ہیں۔

ج: یہ شام میں نصیریوں اورملحد فتحیوں اور باقی عرب ملکوں کی حکومتوں کے نعروں کی طرح ہیں،تاکہ مقامی آبادی کوہمنوابنایاجائے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ)

ترجمہ: اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ، ہم تو ان کے ساتھ صرف مذاق کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ١۴)

مغرب اُنہیں عوام کو سلانے اور خاموش کرانے کے لیے اس طرح کے نعرے اور فضول بکواس کی اجازت دیتا ہے،مشکل ان نعروں کی نہیں بلکہ مشکل تو یہ ہے زمین پر کچھ ایسے لوگوں کاوجود ہے کہ جو اَب بھی ایسے نعروں کو سچامانتے ہیں،یہ اصل مصیبت ہے۔

س: شیخ صادق الغریانی اللیبی۔

ج: میں آپ سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس اُمت میں ایسے قیمتی ہیرے جواہرہیں جوان حکمرانوں کے ظلم کے ڈھیر کے نیچے مدفون ہیں ،آپ عنقریب ایسے علماء دیکھیں گے کہ جنہیں آپ جانتے بھی تھے،ایسے علماء جو ٹی وی چینلوں پر پیش ہو کر اپنے فتوے چند دُنیاوی ٹکڑوں کے عوض فروخت نہیں کرتے تھے،بہت سے ایسے مَرد جیلوں میں ہیں کہ اگر وہ نکل آئیں توبہت عجائب دیکھیں گے ،لیبیامیں (الغریانی) حفظہ اللہ کے علاوہ بھی کئی مَرد ہیں۔

س: قذافی کو کِس طرح گرایاجاسکتا ہے؟

ج: لازمی ہے کہ طرابلس کوحاصل کیا جائے،اور یہ صرف دو مسلح فوجوں کے درمیان حقیقی جنگ سے ہی ممکن ہوگا۔طرابلس میں داخل ہونااور اس پر قبضہ کرکے قذافی اور اس کے بیٹوں کو گرفتار کرناضروری ہے۔

س: آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ ابھی تک طرابلس میں ہی ہیں؟

ہوسکتا ہے کہ اُس کے بعض بیٹے فرار ہوگئے ہوں ،میراخیال ہے کہ اُس کے طیارے کے انجن اسٹارٹ ہوں گے اور ہوسکتاہے کہ اُس نے اپنامال جنوبی امریکامنتقل کردیاہو۔

س: کیاآپ کےخیال میں وہ اتنی شجاعت کا مالک ہے کہ لیبیا میں رہے؟

ج: شجاعت نہیں بلکہ جنون ،وہ عقل کا کھوٹاہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ گمان کرتاہوکہ وہ پورے لیبیائی عوام کے خلاف یہ جنگ جیت جائے گا۔

س: کوئی ایسی نصیحت جو آپ نوجوانوں کو کرناچاہتے ہوں ۔

ج: اُنہیں خود پر اللہ تعالیٰ کے ڈر کو لازم کرناضروری ہے،پھر لوگوں تک حقیقتِ حال کو پوری سنجیدگی سے پہنچانے کے لیے کام کرناہے اور بغیر کسی سُستی اور تھکاوٹ کے اور مسلمانوں کو لیبیامیں جہادِ فی سبیل اللہ پر اُبھارنااور اپنے بھائیوں کے لیے دُعا کرنا۔

ہم پر واجب ہے کہ ہم دُعاکو نہ بھولیں،یہی ہمارا اسلحہ ہے کہ جس کے ذریعے ہم ہر طاغوت کا مقابلہ کرتے ہیں اور اللہ رحم کرے اُس شخص پر کہ جورات کے اندھیرے میں اپنے رَب کے سامنے رورو کر دُعاکرے کہ وہ لیبیامیں مسلمانوں کی مدد کرے۔

یااللہ …!اُنہیں کامیاب کر اور اُنہیں ثابت قدم رکھ اور انہیں دشمن پر غالب کر۔ یارب العالمین مصیبت اُس (قذافی دُشمن) پر ڈال اورکمزوروں پر شفقت فرما اور تو اُن کابن جا یاربّ العالمین۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔