باطل کے ساتھ رواداری!
”مگر ہم تو باطل پر حق کی ضرب لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے (البتہ) تم جو وصف بتاتے ہو وہ تمہارے لئے باعث بربادی ہے۔(سنو) زمین اور آسمانوں میں جو مخلوق بھی ہے بس خدا کی جاگیر ہے۔ اس کے پاس وہ (فرشتے) ہیں جو نہ تو اس کی بندگی سے سرتابی کریں اور نہ کبھی تھکنے کا نام لیں۔ رات دن وہ اس کی تسبیح کرتے ہیں، دم نہیں لیتے۔ان لوگوں نے زمین پہ جنہیں خدا بنا رکھا ہے کیا وہ (بے جان کو جان بخش کر) اٹھا کھڑا کرتے ہیں؟
آسمان وزمین میں ایک اللہ کے سوا اگر کہیں اور بھی معبود ہونے لگتے تو یہاں کا نظام ہی درہم برہم ہوجاتا۔ پس پاک ہے اللہ، عرش کا رب، ہر اس وصف سے جو یہ (مشرک) بیان کرتے ہیں۔
وہ جو کرے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں۔ اور سب (اس کے آگے) جواب دہ ہیں۔
کیا اسے چھوڑ کر انہوں نے اور معبود پکڑ لئے ہیں؟ ان سے کہو: لاؤ اپنی دلیل۔ یہ پیغام بھی (یہیں) موجود ہے جو میرے دور کے لوگوں کیلئے ہے اور وہ (کتابیں) بھی موجود ہیں جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کیلئے نصیحت تھی۔ مگر ان میں سے اکثر ہی حقیقت سے بے خبر ہیں، تبھی اعراض کئے ہوئے ہیں۔
ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا وہ اس وحی کے ساتھ بھیجا کہ ایک میرے سوا کوئی بھی بندگی اور پرستش کے لائق نہیں۔ پس تم (سب) میری ہی بندگی کرو“۔{(سورہ الانبیاء: ١٨۔٢٥)}
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام کی اجنبیت:
عن ابی ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا بدا الاسلام غریباً وسیعود کما بدا غریباً فطوبیٰ للغرباء(رواہ مسلم)
وفی مسند احمد: قیل یا رسول اللّٰہ ومن الغرباء؟ قال: ”الذین یصلحون اذا فسد الناس“ وفی الترمذی: ”فطوبیٰ للغرباءالذین یصلحون ما افسد الناس من بعدی من سنتی“
”ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ نے فرمایا:
”اسلام کا آغاز تھا تو اسلام اجنبی تھا۔ عنقریب یہ شروع ہی کی طرح اجنبی ہو رہے گا۔ تو پھر خوشخبری ہو (اس دور کے) اجنبیوں کو“ (بروایت مسلم)
مسند احمد میں الفاظ آتے ہیں:
”دریافت کیا گیا: ”یہ غرباء(اجنبی لوگ) کون ہوں گے؟“
فرمایا:
”یہ وہ ہوں گے کہ لوگ جب فساد کا شکار ہو جائیں یہ اصلاح کرنے میں لگے ہوں گے“
ترمذی میں الفاظ ہیں:
”توپھر خوشخبری ہو ان غرباء(اجنبیوں) کو، کہ میرے بعد میرے چھوڑے ہوئے راستے میں لوگوں کے ہاتھوں جو فساد در آیا ہوگا یہ اس کو درست کریں گے“۔
حق سے دور ہونے میں لوگ درجہ بدرجہ تقسیم ہوتے ہیں۔ ’فساد‘ کا شکار ہونے میں سب لوگ یکساں نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ بہت زیادہ نہیں ہوتے جو فساد کو جانتے بوجھتے ہوئے اور قصداً و عمداً قبول کر چکے ہوں۔ زیادہ لوگ ___ اپنی غفلت کے سبب ___ محض شبہات اور غلط فہمیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ مگر غور کیجئے تو یہ لوگ بھی معاشرے میں بہت زیادہ نہیں ہوتے۔ کسی معاملے میں ’شبہات‘ اور ’غلط فہمیاں‘ رکھنا بھی اس معاملہ کو ’جاننے‘ کی ایک خاص سطح ہے۔ ’شبہات‘ اور ’غلط فہمیاں‘ رکھنے کیلئے بھی دراصل اس معاملے پر کچھ نہ کچھ سوچ بچار کر رکھی ہونا ضروری ہے۔ حق اور باطل کے فرق کو معاشرے کی توجہ سے محروم رکھا جائے تو لوگ اس معاملے پر ’شبہات‘ اور ’غلط فہمیاں‘ تک رکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
حق سے جہالت کے ماحول میں لوگ زیادہ تر ’تاثرات‘ اور ’رحجانات‘ کاشکار ہوتے ہیں نہ کہ ’شبہات‘ اور ’غلط فہمیوں‘ کا۔ معاشرے میں کچھ اصطلاحات اور تعبیرات اور ریت اور روایت کا چلن ہو جانا اس بات کیلئے کافی ہوتا ہے کہ حق اور لوگوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے۔ دعوت جب اس دیوار کی اوٹ میں کر دی جائے تو لوگ اس کی بابت محض اندازے اور تاثرات قائم کرتے ہیں۔
یوں تو حق کے بیشتر معاملات اس دیوار کی اوٹ میں کر دیئے گئے ہیں مگر حق کا وہ معاملہ جو آج سب سے بڑھ کر اس مشکل سے دوچار ہے وہ دعوت توحید ہے جو کہ حق کی اساس ہے اور اسلام کا صلب موضوع۔ ایک محدود طبقہ تو واقعی اس کی بابت ’شبہات‘ اور ’غلط فہمیاں‘ رکھتا ہے مگر ایک بڑا طبقہ اس کی بابت محض ’تاثرات‘ رکھتا ہے۔
اس سارے بحران کو اگر ہم دو لفظوں میں سمیٹنا چاہیں تو ہمارے پاس اس سے بہتر کوئی الفاظ نہ ہوں گے، جو کہ حدیث کے الفاظ ہیں: یعنی ’اسلام کی غربت‘ یا ’اسلام کی اجنبیت‘ ....
مسلمانوں کا ایک جم غفیر ہے۔ یہاں تک کہ ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ذاتی معنی میں بڑی حد تک ’درست عقیدہ‘ پر ہیں مگر اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے اجنبی ہے اور تنہا۔
حق اپنی اس حقیقت کے اعتبار سے جو ”بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھوز اھق“ کی صورت بیان ہوئی ہے .... حق اپنی اس حقیقت کے اعتبار سے اجنبی ہے اور توجہ سے محروم۔
اسلام کو اطراف عالم میں فتح دلانا بے انتہا قابل تحسین جذبہ ہوگا مگر مسلم معاشروں میں اسلام کی اس اجنبیت کو کم کرنا اور حق کی تنہائی کا یہ دور مختصر کرنا آج کا سب سے بڑا فرض ہوگا۔ اسلام کی اجنبیت نام کے اعتبار سے نہیں بلکہ حقیقت کے اعتبار سے۔
اسلام کی اجنبیت کو ختم کرنے کے اس مبارک کام کا آغاز اسلام کی اس سب سے پہلی حقیقت کو معاشرے کی بنیاد بنا دینے سے ہوگا جس کو اسلام کی غربت اولی کے خاتمہ کے وقت بھی اولین توجہ دی گئی تھی۔ یہ لا الہ الا اللّٰہ کی حقیقت ہے جو کہ اسلام کا بھی آغاز ہے اور ’اسلام کے کام‘ کا بھی۔
شرک سے بیر اور باطل سے معادات توحید کا لازمہ ہے اور انبیاءکی دعوت کا جزو اساس۔ شرک سے بیر توحید کا حق ہے مگر توحید کو اس کا یہ حق دیے بغیر ماننا آج ایک بڑے طبقے میں رواج پا گیا ہے۔ ’شرک نہ کرنا‘ توحید کا کل تقاضا نہیں شرک سے بیر رکھنا بھی اسی طرح توحید ہے اور دین میں مطلوب۔ اس کے بغیر توحید کامل نہیں۔ توحید کا پورے کا پورا پایا جانا سب سے پہلے ضروری ہے۔ ایسا ہو جانے کے بعد ہی خدائے واحد کو کئے گئے سجدے اور قربانی میں بندگی کی اصل حقیقت آتی ہے۔ اس کے بغیر توحید کا کوئی تصور نہیں۔ ذاتی حیثیت میں بھی توحید کا یہ تصور رکھنا درست نہیں مگر جب آپ توحید کو ایک دعوت اور ایک تحریک کا درجہ دینا قبول کر لیتے ہیں تب تو اس طرز فکر کا نقص بہت کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
توحید کی یہ حقیقت عملاً آج سب سے زیادہ اجنبیت کا شکار ہوئی ہے اور بہت اچھے اچھے ’شرک نہ کرنے والے‘ بھی ’رواداری‘ کی اس رو میں بہہ جانے پر کسی نہ کسی حد تک مجبور ہوتے ہیں۔ اس رو کے مخالف چلنا تو البتہ خالی خال ہی کسی کا کام رہ گیا ہے۔
چونکہ اس رو میں بہت تیزی آئی رہی ہے اس لئے اس بحران کا تجزیہ کرتے ہوئے اس مقبول عام ذہن کو ہی اس باب میں زیادہ مخاطب کیا گیا ہے۔
گو اس باب میں ہم نے ان رحجانات کو بھی توجہ دینے کی کوشش کی ہے جو توحید کی دعوت دینے اور توحید کی ترجمانی کرنے میں افراط اور غلو کا شکار ہو جاتے ہیں اور بلکہ یہ افراط اور غلو ان کی ایک حد تک پہچان بھی ہو گیا ہے اور ان کی یہ پہچان ’توحید‘ کی بابت لوگوں کا ایک مستقل ’تاثر‘ بنا دینے کی بھی ایک وجہ بن گئی ہے۔
کسی بحران کا حل اس کی درست تشخیص پر ہی انحصار کرتا ہے۔ مرض کا خاتمہ علاج کر دینے سے ہی ہو سکتا ہے اور علاج کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس جگہ کا تعین کر دیا جائے جہاں بیماری نے گھر کر لیا ہو۔ توحید کے حقوق ادا نہ کئے جانا ہمارے نزدیک اس بحران کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس باب میں ہم اس بات کا جائزہ لینے کی ایک کوشش کریں گے کہ توحید جو کہ اسلام کی اولین حقیقت ہے اپنے حقائق اور اپنے حقوق کے اعتبار سے کیونکر معاشرے میں حاشیائی کر دی گئی ہے۔ ضروری نہیں اس بحران (غربت اسلام) کے سب جوانب ہم نے اس بحث میں سمیٹ دیے ہوں۔ یقینا اس کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر بات ہونا ضروری ہے البتہ اس بحث میں ہم نے ان جوانب کو ہی نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جو ___ ہمارے خیال میں ___ یہاں کے اسلام پسندوں کی توجہ سے بہت زیادہ محروم ہوئے ہیں یا جن کے بیان کی بابت ہمیں زیادہ تشنگی محسوس ہوئی۔
بحران کے اہم جوانب کی نشاندہی کر دینے کے بعد ہی ’چارہ گری‘ کی کوئی صورت تجویز ہو سکتی ہے۔ چارہ گری کے سلسلے میں ہمیں انکار نہیں ہر ایک کا اپنااجتہاد ہو سکتا ہے مگر اس کی نوبت بہرحال ’تشخیص مسئلہ‘ کے بعد آتی ہے۔ تشخیص مسئلہ کی بابت بھی بے شک ہر ایک کا اپنا اجتہاد ہو سکتا ہے مگر اس کی بابت ایک مکالمہ کی ضرورت بہرحال مسلم ہے۔ جہاں تک عملی لائحہء عمل کی بات ہے اور جس کی نوبت تعیین مسئلہ کے بعد آیا کرتی ہے .... تو بعد کے ابواب میں اس حوالے سے بھی ہم نے کچھ نکات اٹھائے ہیں مگر ابھی اس باب میں ہم اس بحران کو سمجھنے، اس کے مختلف جوانب کا تجزیہ کرنے اور اس سلسلے میں پائے جانے والے بعض اہم مغالطوں کا ازالہ کرنے کی ہی کوشش کریں گے۔
یہ سارا سلسلہءمضامین اس فکری، نظریاتی، سماجی اور تہذیبی صورتحال سے بحث کرتا ہے جو برصغیر اور خصوصاً پاکستان میں پائی گئی۔ کچھ اور مسلم ملکوں اور خطوں پر، جزوی فرق ہونے کے باعث، اس کا پورا انطباق نہ ہوتا ہو تو اس کی یہی وجہ ہو گی کہ ہم نے یہ بحث دراصل خود اپنے ماحول اور معاشرے سے متعلق کی ہے۔ گو اس بحث کا عمومی دائرہ برصغیر کے پس منظر سے زیادہ وسیع ہے۔
شرک سے بیر اور باطل سے تعرض
کیا رواداری کے خلاف ہے
”ہر امت کیلئے ہی ہم نے بندگی کا ایک خاص طریقہ مقرر کر دیا جس کی اسے پیروی کرنا ہے۔ پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہ کرنا چاہیے۔ آپ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو (کھل کر) بلائیے۔ یقینا آپ ٹھیک راستے پر ہی ہیں“۔”پھر بھی اگر یہ لوگ آپ سے الجھتے ہیں تو آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہارے حال سے بہت ہی واقف ہے۔ تمہارے سب اختلافات کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز ضرور کر دے گا“۔”کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آسمان وزمین کی ہر بات ہی اللہ کے علم میں ہے۔ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کیلئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے“۔”یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کر رہے ہیں جن کیلئے اس نے نہ تو کوئی سند نازل کی ہے اور نہ یہ خود (انکی پرستش کے حق ہونے کی بابت) کوئی علم رکھتے ہیں۔ ایسے ظالموں کو کوئی مددگار میسر نہ ہوگا“۔”اور جب ان کو ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکرین حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ ان پر ٹوٹ پڑیں گے جو انہیں ہماری آیات سناتے ہیں۔ کہہ دیجئے: تو کیا میں تمہیں اس سے بھی بدتر خبر دوں؟ آگ! جس کا وعدہ اللہ نے ان لوگوں کے حق میں کر رکھا ہے جو قبول حق سے انکار کریں اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے“۔
”لوگو، ایک مثال بیان کی جاتی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا تم جن جن کوپکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو لیں اور تو اور مکھی اگر ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو وہ اسے بھی اس سے نہیں چھڑا سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور!“”حق تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی، جیسا کہ اس کے مقام کا حق ہے، قدر ہی نہ پہچانی....“[(الحج: ٦٧۔ ٧٤)]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر اُمت کیلئے بندگی کا ایک طریقہ متعین کر دیا جاتا رہا ہے اور خدا کے ہاں اس طریقے کے سوا کی گئی بندگی ہرگز مقبول نہیں۔ خدا وہی قبول کرتا ہے جو وہ خود مقرر ٹھہرا دے اور اپنے رسولوں کے ذریعے اس کی اپنے بندوں کو خبر پہنچا دے۔ خدا کواعمال کی کثرت سے راضی نہیں کیا جا سکتا۔ خدا بس اس راستے کی پیروی سے خوش ہوتا ہے جو اس نے آپ اپنی مرضی اور چاہت سے اپنے بندوں پر فرض کردیا ہو۔
وما تقرب الی عبدی بشیئٍ احب الی مما افترضتہ علیہ (رواہ البخاری عن ابی ھریرہ)
”بندے کیلئے میرا تقرب پانے کا کوئی ایسا ذریعہ ہے ہی نہیں جو مجھے ان فرائض سے زیادہ پسند ہو جو کہ میں نے اس پر عائد کر رکھے ہیں“۔
خدا اپنے بندوں پر کیا فرض کرے، یہ وہ جانتا ہے۔ خدا نے اپنے بندوں پر کیا فرض کیا ہے، نبوت محمد کے اس دور میں یہ البتہ ہر کسی کو معلوم ہو سکتا ہے۔ مگر ایک چیز ایسی ہے جو اس نے ہر دور، ہر نبوت اور ہر رسالت کے اندر فرض کئے رکھی ہے اور محمد کی بعثت فرما کر اس کا پوری زمین کے اندر غلغلہ ہو جانے کا انتظام کردیا ہے....
وہ سب سے بڑی چیز جو خدا نے ہر دور میں اور ہر اُمت پر فرض کئے رکھی.... وہ سب سے بڑا مطالبہ جو اس نے ہر دور کے انسانوں کے آگے بہت ہی کھول کر رکھا اور جس سے کسی کو کسی حال میں چھوٹ نہیں دی.... توحید ہے۔ خدا کی یکتائی کا اعتراف ہے۔ بندگی، عبادت اور پرستش کو اس کی تمام تر صورتوں کے ساتھ ایک اللہ وحدہ لاشریک کیلئے کر دیا جانے کی فرضیت ہے اور اس میں کسی ہستی کو ذرہ بھر اور رائی برابر شریک نہ کیا جانے کی تاکید۔
یہاں تک کہ اس نے اس بات کو .... خدا کے سوا اور ہستیوں کی عبادت کا انکار کیا جانے اور بندگی کی سب صورتوں کو ایک اللہ کیلئے خاص کر دیا جانے کو ہر دور اور ہر زمانے میں اسلام کا عنوان بھی قرار دے دیا کہ مبادا کسی کو اسلام کا سب سے بڑا فرض متعین کرنے میں کوئی دقت ہو یا مبادا کسی کو اسلام کا عنوان اور اسلام کا منشور کسی دور میں خود ترتیب دینے کی ضرورت آپڑے۔ یہ کام خدا نے خود ہی کردیا۔ ”بندگیِ غیر اللہ کی نفی اور تنہا خدا کی اطاعت و پرستش“ کو ہر رسول کی رسالت کا جلی ترین عنوان بنا دیا:
وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون (الانبیاء: ٢٥)
”ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ ایک میرے سوا کوئی نہیں جو بندگی کے لائق ہو، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو“۔
ولقد بعثنا فی کل اُمت رسولا ان اعبدوا اللّٰہ واجتنبوا الطاغوت (النحل: ٣٦)
”ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ ”اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو“۔
اس سب سے بڑے اور سب سے جلی فرض کو پھر اس نے ایک ایسے عہد اور حلف نامے کی شکل بھی دے دی جو اس دین میں آنے کیلئے ہر شخص کو اٹھانا پڑتاہے:
اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً رسول اللّٰہ:
اس حقیقت کے بار بار اعادہ کو بہترین ذکر ٹھہرا دیا۔
افضل الذکر لا الہ الا اللّٰہ (ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان)
عن ابی سعید الخدری عن رسول اللّٰہ قال: قال موسی: یا رب علمنی شیئا اذکرک وآدعوک بہ قال: قل یا موسی لا الہ الا اللّٰہ۔ قال: یا رب کل عبادک یقولون ھذا۔ قال: یا موسی لوان السموات السبع وعامرھن غیری والارضین السبع فی کفہ ولا الہ الا اللّٰہ فی کفہ مالت لھن لا الہ الا اللّٰہ (رواہ ابن حبان والحاکم وصححہ، والترمذی وحسنہ)
”ابوسعید خدری رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں: کہ موسی علیہ السلام نے عرض کی: خدایا کسی ایسی بات کا علم عطا ہو جسے میں تیری یاد اور تجھے پکارنے کا ذریعہ بنائوں۔ ارشاد ہوا: موسی ! بولو لا الہ الا اللّٰہ ”نہیں کوئی بندگی کے لائق سوائے اللہ کے“ موسی نے عرض کی: خدایا تیرے سب بندے ہی یہ بات کہتے ہیں۔ فرمایا: موسی ! اگر ساتوں آسمان اور آسمانوں میں رہنے والے سب ذی حیات سوائے ایک میری ذات کے اور ساتوں زمینیں اور زمینوں کے سب باسی ایک پلڑے میں پڑیں اور یہ لا الہ الا اللّٰہ ایک پلڑے ہو تو لا االہ الا اللّٰہ کا پلڑا ان سب کے بالمقابل بھاری پڑ جائے“۔
اسلام کی اس سب سے بڑی حقیقت کا اہم اہم مواقع پر اعادہ کرنا خود عبادت کا ہی حصہ بنا دیا بلکہ عبادت کا حسن ٹھہرا دیا۔ اذان کی صدا میں۔ اقامت کے الفاظ میں۔ بندے کا وضو کرکے پاکیزگی کا احساس پاتے وقت۔ دُعائے استفتاح میں۔ ایاک نعبد وایاک نستعین کہتے وقت۔ سجدہ ورکوع کے متعدد اذکار میں۔ تشہد میں خشوع کے ساتھ اور حلف برداری کے سے احساس کے ساتھ انگشت شہادت بلند کرتے ہوئے۔ جمعہ میں۔ خطبہء حاجت میں۔ کفارہء مجلس۔ حج کا تلبیہ پڑھتے ہوئے۔ عمرہ وحج کے مختلف مواقع پر اور مختلف پیرایوں میں .... اسی حقیقت کا اعادہ اور اسی مشن کی یاد دہانی ہوتی ہے۔
گویا شریعت نے پورا بندوبست کردیا کہ آدمی کو اس کا وہ مشن یاد دلایا جاتا رہے جس کیلئے وہ دُنیا میں آیا ہے اور جس کیلئے دُنیا میں رسول آتے اور کتابیں اترتی رہیں .... تاکہ اس بار بار کے اعادہ سے اس مشن کا عنوان بھی درست ہوتا رہے، جو کہ بہت اہم ہے، اور آدمی کو اس کی تاکید بھی ہوتی رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا نے ہر اُمت کیلئے ایک خاص طریقہء بندگی مقرر کر دیا ہے۔ ہر نبی (رسول) کی اُمت کو الگ شریعت دی ہے اور آداب بندگی میں ہر دو رکے اہل ایمان کو ایک خاص ضابطے کا پابند کیا ہے۔ اس بات کو تسلیم کرنا اس کی مطلق اطاعت کا دم بھرنا ہے۔ خود اپنی ہی اتاری ہوئی کسی بات کو بھی اس نے جب بدلنا چاہا بدل دیا (واذا بدلنا آیت مکان آیت واللّٰہ اعلم بما نزل قالوا انما انت مفتر بل اکثرھم لا یعلمون .... النحل: ١٠١) ایک چیز کو ایک شریعت میں رکھا اور دوسری میں نہ چاہا تو نہ رکھا۔ جس بات کو چاہا منسوخ کیا اور جس بات کو چاہا برقرار رکھا .... باوجود اس حقیقت کے کہ ہر نبی پر شریعت خود اسی کی طرف سے نازل ہوئی۔
وہ جب چاہے خود اپنی ہی شریعت میں کچھ نیا شامل کر دے اور جس بات کو چاہے موقوف ٹھہرا دے۔ [مراد ہے رسول اللہ کی زندگی زندگی۔ اب جو نازل ہو چکا وہ قیامت تک حرف آخر ہے]کسی کو روا نہیں کہ اس سے پوچھے یا اس کو کچھ تجویز کرکے دے۔ اس نے تو پہلے نبیوں کی شریعتوں پر اَڑنے کا بھی کسی کو حق نہیں دیا۔ خود اسی کی جانب سے اترا ہوا ایک حکم بھی، جو اس نے بعد کو منسوخ کردیا ہو اب نہیں چل سکتا۔ پھر یہ حق کسی مخلوق کو کیوں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی چلائے اور اپنی منوائے اور اس ایک کے سوا کسی اور کا بنایا ہوا ضابطہ ضابطہ کہلائے۔ خدا وہ ہو اور چلے یہاں کسی اور کی؟ لوگوں کیلئے رُخ زِندگی اس کے سوا کوئی اور متعین کرے تو کیوں؟ اختیار صرف اس کا ہے۔
وربک یخلق ما یشاءو یختار ما کان لھم الخیرہ سبحان اللّٰہ وتعالیٰ عما یشرکون (القصص: ٦٨)
”تیرا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور اختیار کرتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اختیار ان کا حق نہیں اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولکل امت جعلنا منسکاھم ناسکوہ فلا ینازعنک فی الامر ....
”ہر اُمت کیلئے ہی ہم نے بندگی کا ایک خاص طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کی اُسے پیروی کرنا ہے۔ پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے....“
موسیٰ علیہ السلام یا عیسی علیہ السلام کی شریعت پر چلنے کا دعویٰ کرنے والے بھی یہ حق نہیں رکھتے کہ آپ کے ساتھ اس معاملے میں جھگڑا کریں۔ ان کو بھی یہ حق نہیں کہ آپ کے ساتھ اس بات پر الجھیں کہ خدا کی شریعت میں کیا ہو اور کیا نہ ہو ....
یہود ہوں یا نصاری یا کسی اور مذہب کے پیروکار، سب کو یہ حق تو دیا جانا ہے کہ وہ محمد کی شریعت کے ساتھ ایمان لائیں یا کفر کریں اور اس کے نتیجہ میںخدا کے ہاں جا کرجزا پائیں یا سزا۔ مگر یہ بات کہ شریعت میں کیا ہو اور کیا نہ ہو، قبلہ یوں ہو یا یوں، فلاں چیز حرام ہو یا حلال، زانی کو رجم اور چور کا ہاتھ کاٹنا چاہیے یا نہیں اور یہ کہ سود میں کوئی خرابی ہے یا نہیں .... اس کا حق کسی کو اس دُنیا میں بھی نہیں ہے۔
”ہر اُمت کیلئے ہم نے بندگی کا ایک خاص طریقہ مقرر کردیا ہے جس کی اسے پیروی کرنا ہے۔ پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے ....“
چنانچہ شریعت کے عام احکام کا جب یہ مقام ہے کہ ایک بار وہ وحی سے واضح اور صاف طور پر ثابت ہو جائیں تو ان پر بحث جائز نہیں رہتی (فلا ینازعنک فی الامر) پھر اگر معاملہ دین کی ان اساسیات کا ہو جو کبھی کسی دور میں اور کسی نبی کی شریعت میں تبدیل ہوتی ہی نہیں اور جن کی ہر نبی کی اُمت ہی مکلف رہی ہے .... تو دین کی ان اساسیات کو محل نظر کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ ان پر بحث کیونکر جائز ہو گی؟؟؟
فلا ینازعنک فی الامر وادع الی ربک انک لعلی ھدی مستقیم
”پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔ آپ (بے پروا ہو کر) لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف بلائیے۔ یقینا آپ ٹھیک ہدایت پر ہی ہیں“۔
دُنیا میں جوبات آگئی اور دین کی جو بنیاد ٹھہرا دی گئی اور جو کہ ہمارے لئے اب (منسکاً) ہے ہمیں اس کو من وعن ماننا اور اس پر عمل پیرا ہونا ہے (ھم ناسکوہ) اور من وعن ان کی پیروی کرنے کی ہی دعوت دینی ہے (وادع الی ربک) اور عین اسی بات کو حق جاننا ہے (انک لعلی ھدی مستقیم)
خدا کی بلاشرکت غیرے بندگی کرنا اور اسی کی دعوت دینا، خدا کے سوا پوجے اور پکارے جانے والوں کو باطل کہنا اور طاغوت جاننا، خدا کے سوا پوجے جانے والوں کی عبادت کے آڑے آنا اور معاشرے میں اس کا چلن نہ ہونے دینا، پرستش، عبادت اور اطاعتِ قانون میں خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک کر دینے پر آدمی کو ___ اقامتِ حجت ہو جانے کے بعد ___ انبیاءکے دین سے خارج سمجھنا اور جانتے بوجھتے ہوئے اور علم رکھتے ہوئے خدا کے ساتھ شریک پر مصر رہنے والے (تارکِ توحید) کیلئے انبیاءکے دین میں باقی رہنے کی کوئی گنجائش نہ پانا اور حجت قائم کر دینے کے بعد اس کو جہنم کے عذاب سے صاف صاف متنبہ کر دینا .... توحید کو ایمان، نماز، تحریک، جہاد، دعوت اور معاشرے کی بنیاد بنانا، اللہ ورسول اور ایمان والوں سے تمام تر وفاداری رکھنا اور طاغوت و اولیاءطاغوت سے دشمنی روا رکھنا .... دین کی ایک ایسی بنیاد ہے جو ہر نبی کی شریعت اور ہر نبی کی دعوت کا مستقل حصہ رہی۔ ہم اس کے ازروئے شریعت پابند ہیں .... اور اس معاملے میں کسی کو ہم سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔
یا تو ایک بات خدا نے مقرر ٹھہرائی نہ ہو تب ہم خدا پر جھوٹ باندھیں گے اگر ہم اس کو دین کی بنیاد قرار دیں اور خداپر جھوٹ باندھنے سے بڑھ کر دین میں کوئی ظلم نہیں۔ لیکن شرک سے مخاصمت اور اہل شرک سے بیزاری و براءت اگر انبیاءکا دین ہے تو پھر اس کو’اسلام کے کام‘ سے حذف کر جانے کا کسی کو اختیار کیسا؟
قال افرایتم ما کنتم تعبدون انتم و آباؤکم الاقدمون فانھم عدو لی الا رب العالمین (الشعراء: ٧٥۔٧٧)
”ابراہیم نے کہا: کیا کچھ خبر بھی ہے وہ سب جنہیں تم پوج رہے ہو تم اور تمہارے اگلے باپ دادا، یہ سب میرے دشمن ہیں بجز ایک رب العالمین کے“۔
قال یقوم انی بریء مما تشرکون (الانعام: ٧٨)
”ابراہیم پکار اٹھا: اے برادران قوم! میں بری وبے زار ہوا ان سب سے جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو“۔
واذ قال ابراہیم لابیہ وقومہ اننی براءمما تعبدون الا الذی فطرنی فانہ سیہدین وجعلہا کلمہ باقیہ فی عقبہ (الزخرف: ٢٦۔ ٢٨)
”یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا: تم جن کی بندگی کرتے ہو میں ان سے صاف بری وبے زار ہوں۔ میرا تعلق ہے تو صرف اس ذات سے جس نے مجھے پیدا کیا، وہی ذات ہے جو میری رہنمائی کرے گی۔ اور ابراہیم یہی کلمہ اپنی پچھلی نسلوں کیلئے چھوڑ گیا ....“
قد کانت لکم اسوہ حسنہ فی ابراہیم والذین معہ اذ قالوا لقومہم انا برءاءمنکم ومما تعبدون من دون اللّٰہ کفرنا بکم وبدا بیننا وبینکم العداوہ والبغضاءابداً حتی تومنوا باللّٰہ وحدہ .... (الممتحنہ:٤)
”(مسلمانو!) تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا: ہم تم سے اورجن جن کی تم اللہ کے سوا بندگی کرتے ہو ان سب سے بری وبے زار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کیلئے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لے آؤ....“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام کی اس انداز کی دعوت پر .... حتی کہ اسلام کے محض اس انداز کے تعارف پر کئی جانب سے رواداری کا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ محض ہمارے دور میں نہیں، ہر دو رمیں ایسا ہوا ہے۔
توحید پراصرار اور شرک سے مخاصمت .... اسلام کا یہ فرض معاشرے کے ایک محدود طبقے کی شدید ناپسندیدگی کا سبب بنتا ہے۔ مگر اس خاص طبقے کی پسند ناپسند چونکہ معاشرے کے ایک بہت بڑے طبقے کی زبان میں بولتی ہے لہٰذا کوئی معاشرہ جب توحید کی حقیقت سے دور ہو اور اس کی قیادت جاہلیت کے ہاتھ میں ہو تو اس دعوت اور اس فرض کو وہاں کچھ ایسی مزاحمت پیش آتی ہے گویا پورا معاشرہ ہی اس کےخلاف ہے۔ تب بہت لوگ ’اسلام کا کوئی اور کام‘ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک واقعتا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔
ایک غریب نادار شخص جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے تک سے عاجز ہے ذہنی طور پر اس قدر مفلوج اور معاشرتی دھارے کے ہاتھوں اس حد تک مغلوب کر دیا جاتا ہے کہ کسی طاغوت کے آستانے پر چڑھاوا چڑھا کر اپنی غربت اور اس کی دولت کی ریل پیل میں اضافہ کرکے آئے۔ صرف اتنا نہیں بلکہ اپنی جان کا استحصال کرنے والے اس انسان کے بارے میں کوئی ’غلط بات‘ سننا تک گوارہ نہ کرے کیونکہ اگر اس کی گنجائش چھوڑ دی جائے تو دریو زہ گری کا یہ سب کاروبار ہی خطرے میں پڑ جائے۔
ایک ظالم سرکش کے پنجہء استبداد میں کراہنے والے بیچارے ہی قوم اور قبیلہ اور باپ دادا کے نام پر اس ظالم کی بڑائی کا علم تھامنے کو کھڑے ہوتے ہیںاور خوشی خوشی اپنا آپ اس کی عظمت پر وار دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
سب سے پہلے لوگوں کی عقل کا استحصال ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر خودبخود ہر چیز کا استحصال ہونے لگتا ہے۔ لوگ نہ صرف اپنا استحصال کرواتے ہیں بلکہ اپنے اوپر روا رکھے گئے اس ظلم اور استحصال کا دفاع بھی کرتے ہیں اور کسی کو اس کےخلاف ’گستاخی‘ کی اجازت بھی نہیں دیتے!
آج ہمارے دور میں بھی انسانی معاشرے جس بدترین استحصال کا شکار ہیں اور جس کے انتہائی نتیجہ میں قوموں کی قومیں ایک محدود عالمی طبقے کی اسیر کر لی گئی ہیں اس کے پیچھے یہ عقل کا استحصال ہی کارفرما ہے۔
درست ہے کہ انبیاءکا دین محض دُنیا کے مسائل حل کرنے نہیں آیا۔ یہ کائنات کے آفاقی اور ابدی حقائق کوانسان کے قلب وذہن میں اُتارنے اور پھر اس کے قول و کردار میں ڈھالنے آیا ہے اور اگر محض دُنیا کے بحرانات و مسائل کو ہی ان کا کل ہدف قرار دے دیا جائے تو یہ ایک بہت عظیم چیز کو بہت چھوٹا کر دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے ابتدائی پیغام میں لوگوں کے سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کوئی خاص توجہ نہ پائی۔ خدا کی معرفت اور خدا کی کبریائی .... بندگی ونیاز میں خدائے وحدہ لاشریک کی یکتائی .... دل کی دُنیا میں اس ایک کے سوا سب کے دیے بجھا دینا اور سب کی عبادت وپرستش کا انکار کروادینا .... یہ ایک ایسا عمل ہے جو دُنیا کے مسائل سے بلکہ خود اس دُنیا سے بڑا ہے اور ایک بڑی چیز اپنے سے چھوٹی چیزوں میں فٹ نہیں ہوا کرتی۔ مگر پھر بھی یہ وہ چیز ہے جو دُنیا کے بہت سے گھمبیر مسائل کو بڑے آرام سے، بلکہ ایک غیر محسوس انداز میں، حل کر جاتی ہے۔ چنانچہ توحید دُنیا کی خیر بھی ہے اورآخرت کی بھی۔
عقل کے استحصال کا خاتمہ توحید کا ایک خودبخود اور لازمی نتیجہ ہے۔ یہ وجہ ہے کہ وہ سب طبقے جن کی بقا دُنیا میں عقل کے استحصال سے مشروط ہے توحید کی دعوت دیے جانے پر لازماً چیخ پڑتے ہیں اور بسا اوقات وہ اس ’چیخ وپکار‘ کا کام معاشرے کے سادہ لوح طبقوں کو سونپ دیتے ہیں۔ ’میڈیا‘ کا کردار دُنیا میں ہمیشہ زبردست رہا ہے۔ ’صاحب معاملہ‘ پیچھے چھپا رہتا ہے اور وہ لوگ جن کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہوتا اسکے فریق بن جاتے ہیں!
توحید پر اصرار اور شرک سے مخاصمت کا یہ فرض دین کے دیگر فرائض مانند نمازو روزہ اور زکوت وحج سے یکسر مختلف ہے۔ یہ واضح طور پرایک ایسا فرض ہے جو معاشرے کے ایک خاص طبقے کی شدید ناپسندیدگی کا سبب بنتا ہے۔ شیاطین جن وانس جو صبح شام لوگوں کے سینوں میں وسوسے پھونکتے ہیں اس فرض کے بجا لائے جانے پر جتنا سیخ پا ہوتے ہیں اتنا اسلام کے کسی اور فرض کے ادا کرنے پر نہیں ہوتے۔ پھر عقل کے استحصال کی راہ سے اس بات کا انتظام کر لیا گیا ہوتا ہے کہ اس محدود طبقے کی پسند ناپسند ہی معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی زبان میںبولے .... یہاں سے توحید پر اصرار اور شرک کے خاتمہ کے سوال پر معاشرے میں ’رواداری‘ کا سوال اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
ایک غلط کو، اگر وہ معاشرے کے ایک بڑے طبقے میں رائج ہے، غلط مت کہا جائے اور باطل کو، اگر وہ سماج کے کسی شعبے پر مسلط ہے، باطل اور کفر اور ہلاکت کے نام سے نہ پکارا جائے .... یہ ’رواداری‘ کا کم از کم تقاضا ٹھہرتا ہے! جاہلیت کا یہ مطالبہ اگر آپ تسلیم کر لیتے ہیں تو آپ کو اچھے القاب ملتے ہیں۔ تب آپ ’مہذب‘ ہیں۔ ’زمانہ فہم‘ ہیں۔ ’روشن خیال‘ ہیں اور حد درجہ قابل ستائش۔ بے شک ذاتی زندگی میں آپ شرک سے پرہیز کئے رہتے ہوں، جاہلیت آپ کی اس بات کو کسی نہ کسی طرح برداشت کر لے گی مگر شرک کی مخالفت اور باطل کے آڑے آنے سے آپ کو ضرور روکے گی۔
زمانے کے سر نہ آنے کی بابت [ قالوا اولم ننھک عن العالمین (الحجر: ٧٠) ”وہ بولے: (اے لوط) کیا ہم نے تجھے دُنیا بھر کی (ٹھیکیداری) سے منع نہیں کر رکھا؟“ (ترجمہ از مولانا محمد جونا گڑھی)] آپ کو مشورہ دینے کیلئے جاہلیت آپ سے وقت کی ایک خاص ثقافتی زبان میں بات کرے گی۔ آپ اس کا اشارہ پا لیتے ہیں تو یہ آپ کی ذہانت اور عبقریت کی خوب داد دے گی۔ ورنہ آپ خودبخود اس کی نظر میں کوڑھ مغز ہیں! غرض معاشرے کے اندر ایک ’جدید‘ اور ’عصری‘ انسان بن کر رہنے یا کم از کم نظر آنے کی آپ کو خوب خوب ترغیب دی جائے گی۔ کوئی چیز آپ کے نزدیک شرک اور گمراہی ہے تو ایک غیر محسوس انداز میں آپ بے شک اس کو ترک بھی کئے رکھیں مگر اس سے عداوت اور مخاصمت کو بھی اپنا درد سر نہ بنائیں!
شرک اور باطل کے معاملے میں اکثریت کی راہ سے ہٹ کر اگر آپ کسی بات کے قائل ہیں تو پھر کیا حرج ہے، بس اپنے کام سے کام رکھیں اور دُنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دیں! اپنی مصروفیت کیلئے بے شک کوئی تحقیقی یا سیاسی یا تبلیغی سرگرمی اختیار کرلیں۔ باطل سے حتی کہ ایک ’سیاسی‘ انداز کا اختلاف بھی بے شک کریں۔ کسی بے دین یا ملحد یا شرکیہ رحجانات کی حامل پارٹی کے ساتھ ’سیاسی‘ جنگ تک آپ کر سکتے ہیں مگر یہ کہ اس کے ساتھ خالصتاً ایک عقیدہ کی جنگ چھیڑ دیں اور ایک اصولی انداز کی مخاصمت رکھیں یوں شرک اور باطل کے ساتھ آپ کسی ایسی جنگ کا علم بلند کریں جو ”حتی تومنوا باللّٰہ وحدہ“ کے سوا کسی صورت تھمنے والی ہی نہ ہو .... اس کی بہرحال گنجائش نہیں۔
تاوقتیکہ آپ جاہلیت کی عصری تعبیرات کی رو سے اپنی ’معقولیت‘ اور ’موزونیت‘ کا بھرم رکھنے کی خواہش سے ہی دستبردار نہیں ہو جاتے جاہلیت سے آپ ایک سنجیدہ اور ٹھیٹ نوعیت کے کسی اختلاف کے متحمل نہیں ہوتے۔ جب تک آپ یہ حد پار نہیں کرتے تب تک آپ کے ’زمانہ شناس‘ اور ’روشن خیال‘ ہونے پر کوئی کلام نہیں۔ باوجود اس کے کہ ’روشن خیالی‘ اور ’زمانہ شناسی‘ کے جاہلیت کی نگاہ میں متعدد درجات ہیں اور بیشتر دیندار سب کچھ کر کرا کے بھی اس میں کوئی اعلیٰ درجہ نہیں پا سکتے مگر شرک اور باطل کی مخاصمت سے دستبردار ہو کر آپ جاہلی امتحان میں اعلیٰ نمبروں کے ساتھ نہ سہی پاس ضرور ہو جاتے ہیں۔ جاہلیت کی جانب سے ایک پڑھے لکھے دیندار کیلئے یہ کوئی چھوٹی رشوت نہیں۔ کہنے کو یہ شخصیت کا محض ایک تاثر ہے مگر اس کی طلب میں بہت سے لوگ اگر جان سے نہیں گزرتے تو حق سے بہرحال گزر جاتے ہیں۔ ہاں اگر آپ جاہلیت کا یہ مطالبہ جو وہ ایک خاموش اور عصری انداز میں کرتی ہے، رد کر دیتے ہیں تو آپ ’جنونی‘ ہیں ’تفرقہ پرست‘ ہیں ’جہالت پسند‘ ہیں اور نہ جانے کیاکیا ہیں!
کہنے کو یہ بس ایک طعنہ ہے۔ چند الفاظ ہیں۔ مگر بہتوں پر بھاری گزرتے ہیں۔ ’بُرا پڑجانا‘ انسان کو طبعاً ناپسند ہے اور ستائش پانا ہر شخص کو بھلا لگتا ہے۔ خاص طو رپر اس طبقے کے ہاں ’قابل قبول‘ ہونا جو معاشرے پر اثر رکھتا ہے۔ اس طبقے کی تو ملامت سے بچ جانا ہی، جو کہ بے انتہاءبلیغ اور عصری انداز میں ہوا کرتی ہے، ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے! مگر یہ معاملہ انسانوں میں بُرا پانے یا ستائش پانے سے بہت بڑا ہے۔ جاہلیت کے کچھ لفظوں کی ہی اگر آپ تاب نہیں لا سکے تو دعوت حق کی راہ میں اور آپ کیا اٹھائیں گے؟ یہ تو سب سے پہلے اعصاب کی جنگ ہے۔
توحید پر اصرار اور شرک سے عداوت کا یہ فرض جاہلیت کو جب ناگوار گزرتا ہے اور وہ معاشرے کی جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کی عقل کا استخفاف کرکے معاشرے میں اس فرض کے خلاف جو ایک مزاحمت پیدا کرتی ہے تو یہ ایک آزمائش ہوتی ہے۔ کوئی بے شک آپ کو پتھر نہ مارے زمانے بھر کی مخالفت مول لینا ویسے ہی آسان کام نہیں۔ پھر جبکہ ذاتی طور پر خدائے واحد کو پوجنے کی آزادی بھی ہو! شرک سے بیراور باطل سے تعرض .... یہ فرض دعوت توحید سے حذف کر دینے کو تب اکثر لوگوں کا دل چاہنے لگتا ہے۔ اس کی دعوت دینا تو خیر بڑا کام ہے اس فرض کو فرض جاننا ہی تب استقامت چاہتا ہے۔ جب سارا زمانہ ایک طرف ہو تو شیطان یہ شک ڈالتا ہے کہ شاید یہ (یعنی شرک سے مخاصمت) فرض نہیں کوئی سنت اور نفل قسم کی چیز ہے جو اگر چھوٹ جائے تو کوئی اتنا بڑا حرج نہیں۔ یہاں تک کہ اس کا درجہ ’نفل‘ سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ تاآنکہ بعض کے نزدیک یہ ’جائز‘ تک نہیں رہتا اور وہ اس فرض کو باقی توحید سے الگ کرکے دیکھنے لگتے ہیں: ’ٹھیک ہے یہ خدا کو ایک ماننا اور شرک نہ کرنا تو مان لیا مگر یہ شرک سے عداوت اور مخاصمت کی فرضیت کہاں سے نکل آئی!؟‘ شرک سے عداوت اور مخاصمت کی فرضیت پھر نہ پورے قرآن میں کہیں نظر آتی ہے اور نہ انبیاءکی زندگیوں میں۔ شرک سے ’نزاع کی فرضیت تب آدمی کو لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی بات لگتی ہے اور سراسر غلو اور انتہا پسندی!
باطل کی مخالفت اور شرک سے عداوت کا پہلو بیچ سے نکال دیا جائے تو پھر حق کی دعوت بھلا کس کو بری لگے گی!؟
دعوت معاشرے میں کس بات کی دی جائے؟
ظاہر ہے ہر اچھی بات کی دعوت دی جانی چاہیے اور ہر بُری بات سے لوگوں کو روکنا چاہیے۔ دعوت کا آغاز کس ’اچھی بات‘ سے ہو؟ اور کس بُری بات سے لوگوں کو سب سے پہلے روکا جائے؟
کس ’اچھی بات‘ کی لوگوں کو سب سے زیادہ دعوت دی جائے اور کس ’بُری بات‘ سے لوگوں کو سب سے زیادہ روکا جائے؟
سوال اصل میں یہ ہے۔
کیا خیال ہے اس کا جواب اگر قرآن سے اور رسول اللہ کی دعوتی زندگی سے اور تمام انبیاءکی تعلیم سے لے لیا جائے؟ قرآن، رسول اللہ کی دعوتی زندگی اور انبیاءکی تعلیم اس سوال کا اس قدر واضح جواب ہے کہ جاہلیت کی ڈالی ہوئی تمام تر گرد کے باوجود اس کا روپوش ہونا ممکن نہیں۔
توحید کو منوانا اور شرک کی بیخ کنی کرنا .... اس سوال کا جواب قرآن اور دعوت انبیاءسے اس کے سوا اور کیا ملے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلا ینازعنک فی الامر وادع الی ربک انک لعلی ھدی مستقیم وان جادلوک فقل اللّٰہ اَعلم بما تعملون اللٰہ یحکم بینکم یوم القیامہ فیما کنتم فیہ تختلفون
”پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑانہیں کرنا چاہیے۔ آپ (کھل کر) لوگوں کو خدا کی طرف بلائیے۔ یقینا آپ ٹھیک راستے پر ہی ہیں۔ پھر بھی اگر یہ لوگ آپ سے الجھتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے اللہ تمہارے اعمال سے بہت واقف ہے۔ تمہارے سب اعمال کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز ضرور کر دے گا....“
یعنی شریعت کے کسی معاملے پر، خدا کی ٹھہرائی ہوئی کسی حقیقت پر تو بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ کوئی ترمیم، کوئی ردوبدل اور خدا کی ٹھہرائی ہوئی کسی بات پر ’نظر ثانی‘ کا تو سوال خارج از بحث ہے۔ وہ مانتے ہیں تب نہیں مانتے تب، تم البتہ انہیں اسی کی دعوت دو اور اسی بنیاد پر ان کو خدا کی طرف بلائو۔
محمد کی شریعت میں جو آگیا اس کو حق ہونے کی سند خداکی طرف سے حاصل ہو چکی ہے۔ وہ ھدیً مستقیم ہے۔ البتہ اس کو منوانے میں زبردستی کی گنجائش ہے اور نہ ضرورت۔ اس کا فیصلہ قیامت کے روز خدا خود کرنے والا ہے۔ یہ ایک ایسی اعلی بات ہے جس کو منوانے کیلئے لوگوں کے عقل وفہم اور ان کے قلب وضمیر کو مخاطب کیا جانا ہے۔ اس میں کوئی دھونس نہیں۔ بات ماننے یا نہ ماننے کی پوری آزادی ہے۔ مگر وہ بات جو خدا کی طرف سے آگئی اس میں ’ترمیم‘ کروانے کا البتہ کسی کو حق نہیں۔ اس میں ’تبدیلی‘ یا ’نرمی‘ لے آنے کا مطالبہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ اس کو کھول کھول کر بیان کر دو اور پھر ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دو:
”پھر بھی اگر یہ لوگ آپ سے الجھتے ہیں تو آپ کہہ دیں اللہ تمہارے اعمال سے بہت واقف ہے۔ تمہارے سب اعمال کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز ضرور کر دے گا....“
البتہ یہ بہت واضح ہے کہ اسلام کی کوئی اور بات بری لگے نہ لگے شرک کی مخالفت اور باطل کی مذمت اور تنہا خدا کی بندگی کی دعوت ظالموں کو بہت ناگوار گزرتی ہے .... ان دو عقیدوں کے مابین مخاصمت کا رشتہ ہی کچھ ایسا ہے:
ویعبدون من دون اللّٰہ مالم ینزل بہ سلطانا ومالیس لہم بہ علم وما للظالمین من نصیر۔ واذا تتلی علیہم آیاتنا بینات تعرف فی وجوہ الذین کفروا المنکر یکادون بسطون بالذین یتلون علیہم ایاتنا
”یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کر رہے ہیں جن کیلئے نہ تو اس نے کوئی سند نازل کی ہے اور نہ یہ خود (ان کی پرستش کے حق ہونے کی بابت) کوئی علم رکھتے ہیں۔ ایسے ظالموں کیلئے کوئی مددگار نہ ہوگا۔
اور جب ان کوہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو منکرین حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ ان پر ٹوٹ پڑیں گے جو انہیں ہماری آیات سناتے ہیں....“۔
لیکن اگر بات پوری طرح پہنچا دی گئی ہے تو کوئی پروا نہیں۔ اس پر خدا کے عذاب کی کھلی کھلی وعید سنا دینا تک درست ہے اور یہ تلقین خود قرآن ہی کر رہا ہے:
قل افاو نبؤکم بشر من ذلکم۔ النار وعدھ اللّٰہ الذین کفروا وبئس المصیر
”کہہ دیجئے پھر کیا میں تمہیں اس سے بھی بدتر خبر دوں؟ آگ! جس کا وعدہ اللہ نے ان لوگوں کے حق میں کر رکھا ہے جو قبول حق سے انکار کریں اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے“۔
گویا اس پر وعید تک سنا دینا رواداری کے خلاف نہیں۔نہ ہی یہ لہجہ ”لوگوں کا معاملہ خدا پر چھوڑ دینے“ کی بات سے متعارض ہے۔ باطل کے ساتھ شدید ترین لہجہ اپنا لینا اس دعوت ہی کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے اور یہ ہرگز کوئی دھونس اور زبردستی نہیں کہلاتا۔
غیر اللہ کی خدائی کو باطل کہا جانا اور بندگی و پرستش میں خدا کے ساتھ شرک ہو جانے کو شدید مذمت کا مستحق جاننا حتی کہ اس پر وعید آتش تک سنا دینا خدا کی عظمت اور کبریائی کا حق ہے۔ یہ ایک بالکل درست رویہ ہے۔ انبیاءکی زندگی اس پر شاہد ہے۔ اس پر تعجب تب ہوتا ہے اور یہ ’رواداری‘ کے منافی تب نظر آتا ہے جب آدمی کی نگاہ سے انبیاءکا وہ جہاد جو وہ زندگی بھر کرتے رہے روپوش ہو جائے اور سب بڑھ کر جب آدمی خدا کی وہ شان اور قدر، جو کہ اس کا حق ہے، پہچاننے پر قدرت نہ پائے۔
وما قدروا اللّٰہ حق قدرہ ....
”حق تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی، جیسا کہ اس کے مقام کا حق ہے، قدر ہی نہ پہچانی....“
خدا کے حق کی یہ ایک خاص حرمت تھی جو انبیاءکو شرک اور باطل کے خلاف بولنے پر مجبور کرتی تھی۔ خدا کے حق کی یہ حرمت مگر جب نگاہوں سے روپوش ہونے لگے تو تب اس ’رواداری‘ کے مستحسن نظر آنے کی نوبت نظر آتی ہے جس کی رو سے خدا کے سوا معاشرے میں اوروں کی اطاعت وبندگی کے خلاف محاذ کھڑا کرنا ایک فرقہ وارانہ اور اختلافی مسئلہ قرار پاتا ہے اور یہ ’موضوع بحث‘ نظر انداز ہونے بلکہ اجتناب برتے جانے کے قابل ہوتا ہے؟
وما قدروا اللّٰہ حق قدرہ ....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہ حج سے ہم نے جو آیات ذکر کی ہیں ان میں شریعت کی اٹل حیثیت، توحید کی دعوت دی جانے کی اہمیت، رواداری کی حدود، دعوتِ توحید کے خلاف دُنیا کے سرکشوں کا ’طبعی‘ ردعمل، توحید کی دعوت پر ظالمین کا سیخ پا ہونا اور ان کے چہرے بگڑنا اور ان کا اس دعوت کے آڑے آنے کی ہر کوشش کرنا، اہل حق کو ان کے ساتھ معاملہ کرنے کی ہدایت، ان کا معاملہ خدا پر اور قیامت کے روز پر چھوڑ دینے کی تاکید، مگر شرک کی حقیقت اور اس کی شناعت بیان کیا جانے کی ضرورت اور ایک موحدانہ انداز میں اللہ کی شان اور قدر پہچاننے کی تاکید .... سورہ حج کی ان آیات میں دین کی ان سب بنیادوں کا ایک زبردست اور پرلطف ذکر ہے۔ یہ سب باتیں چونکہ ہمارے اس مضمون سے گہرا تعلق رکھتی ہیں اس لئے گفتگو کا آغاز ہم نے ان آیات کے ذکر سے کیا ہے۔ اس کے بعد کی آیات بھی اختتام سورت تک بنیادی طور پر اسی موضوع کا تسلسل ہیں۔ ان کو بغور دیکھ لینا اس موضوع کی افادیت اور معنویت اور بھی بڑھا دے گا۔ خصوصاً سورہ حج کی آخری آیت جہاں یہ موضوع اپنے عروج کو پہنچتا ہے:
”اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمہیں اپنے (اس) کام کیلئے چن لیا ہے اور اس دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ”مسلم“ رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر۔ پس نمازقائم کرو، زکوٰت دو، اور اللہ سے وابستہ ہو جائو۔ وہ ہے تمہارا مولیٰ۔ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار“۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔